کیا والد کو اپنی نابالغ بچیوں کےایسے نکاح کا مکمل اختیار ہے جس میں لڑکی کو بالغ ہونے کے بعد بھی کوئی اختیار نہ ہو اس میں فقہاء کرام کا اختلاف ہے ۔
فریق اول
جمہور فقہاء کرام کے نزدیک والد کو اپنی نابالغ اولاد پرولایت اجبار حاصل ہے اور وہ بلوغت سے قبل ہی اپنی بچیوں کا اپنی مرضی سے نکاح کرسکتا ہے اور اس کے بارے میں لڑکی کو بالغ ہونے کے بعد کوئی اختیار نہیں ہوگا
فریق دوم
قاضی ابن شبرمہ ،علامہ ابو بکر اصم، علامہ شیخ عثمان بتی اور دور حاضر کے مشہور حنبلی عالم محمد بن صالح عثیمین رحمہم اللہ کے نزدیک والد کو اپنی نابالغ اولاد پر ولایت اجباربالکل حاصل نہیں،اس لیے وہ اپنے نابالغ بچے اور بچی کی بلوغت سے پہلے اس کا نکاح نہیں کراسکتا
اس مقالے میں فریق اول کے تین دلائل اور فریق دوم کے نو دلائل سمیت فریق اول کے دلائل کا دس وجوہات سے جوابات کا ذکر ہے جن کا بنظر غائر جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فریق اول کے قول کو اجماع امت قرار دینا قابل غور ہے کیونکہ دوسری جانب بھی متعدد فقہاء اپنے مضبوط دلائل سمیت موجود ہیں
جب فریقین کے اقوال کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فریق اول بھی والد کو اپنی اولاد کے نکاح کا غیر مشروط ، کلی اور صوابدیدی اختیار نہیں دیتابلکہ ان کے نزدیک بھی لڑکی کی مصلحت ظاہرہ، راجحہ اور معتبرہ کا خیال ضروری ہے ۔جب کہ فریق دوم کےنزدیک یہ بھی عین ممکن ہے کہ والد اپنی ذاتی غرض اور مفاد کی خاطر ایسی جگہ نکاح کرڈالے جہاں اس کی بیٹی کے لیے خطرات،پریشانیاں اورنقصان کا اندیشہ ہو
اگر چہ بظاہر فریق دوم کے دلائل کافی مضبوط معلوم ہوتے ہیں جنہوں نے نابالغ لڑکیوں کے نکاح کی سب سے مضبوط اور اہم ترین دلیل ـــ واقعہ نکاح عائشہ ـــ پر مختلف حوالوں سے کافی اہم سوالات پیش کردیئے ہیں جس کی وجہ سے اس واقعہ سے نابالغ لڑکیوں کی شادی کا استدلال کمزور ہو گیا ہے ۔
مگر ان دلائل سے قطع نظر ان کے باہمی اختلاف کے باوجود ان کااس بات پر اتفاق نظر آتا ہے کہ نکاح کے معاملہ میں متاثرہ فریق (نابالغ لڑکی ) کے مفاد اور مصلحت ظاہرہ ،راجحہ اور معتبرہ کا تحفظ کرنا زیادہ اہم ہے اور یہی قدر مشترک اور وجہ تطبیق بھی بن سکتی ہے
گویا اگر ایک والداپنی نابالغ لڑکی کے مفادات کو نقصان پہنچاتے ہوئے محض اپنے ذاتی دنیاوی مفادات کی خاطر اس کا نکاح کردیتا ہے تو جمہور کے نزدیک بھی یہ نکاح نہیں ہوگا جیسا جمہور علماء و فقہاء کے اقوال میں وضاحت سے تصریح کی گئی ہے اور دور خیر القرون میں جن نابالغ لڑکیوں کے نکاح ثابت ہیں ان میں ان لڑکیوں کے مفادات،مصلحت راجحہ معتبرہ کا خیال رکھا گیا ہے انہیں دور حاضر کی اس نابالغ لڑکی کی شادی کے لیے دلیل بنانا جمہور علماء کے ہاں بھی جائز نہ ہوگا جس کے والدنے صرف اپنی کسی غرض کی خاطرایسی جگہ نکاح کردیا ہو جہاں لڑکی کی زندگی ہی اجیرن بن جائے گویا اس جیسے نکاحوں کے عدم جواز پر فریقین کا اتفاق ہے بات صرف اتنی سی ہے کہ چونکہ ایک والد ہی اپنی اولاد کا بظاہر سب سے زیادہ محسن ہوسکتا ہے اس لیے فریق اول نے نابالغ لڑکی کے والد کو اس کے نکاح کی اجازت دے دی مگر چونکہ یہ نکاح مشروط ہوگا اور اس شرط کی خلاف ورزی پر نکاح ہی غیر مؤثر ہوجائے گا
جب کہ فریق دوم کا خیال ہے ایسا بھی ممکن ہے کہ والد اپنی ذاتی اغراض کی خاطر اس لڑکی کا نکاح ایسی جگہ کردے جہاں اس کو نقصان ہو اور پھر اس کی تلافی کی کوئی صورت ہی باقی نہ رہے ، اس لیے ان کے خیال میں اس کا سد باب اسی صورت میں بہتر ہوسکتا ہے کہ والد کو اختیار نکاح ہی نہ دیا جائے
اس مسئلے میں دونوں فریقوں کے اقوال میں تطبیق اس طرح ہوسکتی ہے کہ نابالغ لڑکی کا نکاح اس کا والد اس شرط پر کر سکتا ہے کہ اس میں کوئی مصلحت ظاہرہ، راجحہ اور معتبرہ واضح اور علانیہ موجود ہو اور اگر ایسی کسی مصلحت کے بغیر والد نکاح کردے تو لڑکی اپنے حق تلفی کے قانون کے تحت بالغ ہونے پر اپنا حق وصول کرتے ہوئے نکاح فسخ کرسکتی ہے کیونکہ اس کے والد کو جس پدرانہ شفقت اور ہمدردی خیرخواہی کی باپ ہونے کے ناتے اضافی خصوصیات کی وجہ سے اس لڑکی کے نکاح کا اختیار دیا گیا تھا اپنے سوء اختیار پر مبنی فیصلے کی وجہ سےاس حق سے محروم ہوچکا ہے مگر اس کے لیے لڑکی کو بلوغت کے بعد رضامندی کے اقرار سے پہلے ہی انکار کرنا ہوگا تا ہم چونکہ شریعت نے لڑکی کے لیے اس کے اولیاء کا ایک حق اور مقام رکھا ہے اس لیے وہ اس موقع پر موجود اولیاء کے مشورے سے فیصلہ کرے تاکہ آئندہ مشکلات میں اس کے یہ ولی اور خاندان اس کا ساتھ دیں
اور اگر کسی دور یا علاقے میں اسلامی حکومت محسوس کرے کہ نابالغ لڑکیوں کی شادی میں انصاف اور حقوق کے تقاضے پورے نہیں کیے جارہے تو اس پر باقاعدہ پابندی لگاسکتی ہےجیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے متعدد ثابت شدہ امور میں ترمیم کرتے ہوئے پابندی لگادی تھی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زمانے کے حالات کے پیش نظر ہی ام ولد کی فروخت پر پابندی لگادی تھی حالانکہ دورنبوی اور دور صدیقی میں اس کی باقاعدہ خرید و فروخت ہوتی رہی اسی طرح مجلس واحد میں طلاق ثلاثہ سے رجوع پر پاپندی لگادی حالانکہ دور نبوی اور دور صدیقی میں اس پر کوئی پابندی نہیں تھی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت عمر کے یہ فیصلے باقاعدہ صحابہ کرام کی مشاورت سے ہوئے جو اس بات کی بھی دلیل ہیں کہ صحابہ کرام کا اس پر اجماع ہے کہ بدلتے ہوئے حالات کے تحت مسائل کے احکامات بھی قرآن و سنت کی روشنی اور ان کے متعین اور واضح کردہ اصولوں کے دائرے میں تبدیل ہوسکتے ہیں یہی وہ خوبی ہے جو اسلام کو ایک آفاقی ، عالم گیر اور قیامت تک کے لیے دین حق ثابت کرتی ہے
خلاصہ کلام
یہ نکلا کہ فریقین کا مطمح نظر ایک ہی ہے کہ نابالغ لڑکی کے مفادات ،مصلحت ظاہرہ،راجحہ اور معتبرہ کا تحفظ ہو فریق دوم کے دلائل سے تو یہ بات خوب واضح ہوجاتی ہے جبکہ فریق اول نے دلائل میں جو واقعہ پیش کیا ہے اس میں بھی یہی اصول روز روشن کی طرح کارفرما نظر آتا ہے لہذا ان میں کوئی خاص تعارض نہ رہا چونکہ مصلحت راجحہ معتبرہ کا فیصلہ اس عاقلہ بالغہ لڑکی ہی کا ہوگا کیونکہ حضور ﷺ نے ایک لڑکی ہی کی شکایت پر اس کے والد کا نکاح ختم کردیا تھا اور اس کی اپنی پوری زندگی کا معاملہ ہے اس لیے اس صورت میں لڑکی کا اس نکاح کو برقرار رکھنا ایک طرح سے اس کے والد کا ہی نکاح ہو گا اور ایک حیثیت سے اس کی اپنی پسند اور اختیار کا نکاح ہے لہذا دونوں فریقوں کے نزدیک یہ نکاح درست ہوگا اور اگر اس عاقلہ بالغہ لڑکی کے نزدیک اس نکاح میں نقصان کا خطرہ ہے یا اس کے لیے مناسب نہیں تو اس صورت میں فریق دوم کے نزدیک اس کا نکاح منعقد ہی نہیں ہوا تھا جب کہ فریق اول کے نزدیک اس کے والد کے سوء اختیار کے مرکب ہونے سے اس لڑکی کو حضور ﷺکے فرمان کے مطابق حق تنسیخ حاصل ہوگا