تفسیر رازی کی روشنی میں حرمت سود کی علت کاتحقیقی جائزہ

سود و ہ   بدترین اور سخت گناہ ہے جس کے ارتکاب پر اللہ تعالیٰ نے دیگر تمام بڑے بڑے گناہوں کے برعکس  شدید دنیاوی اور اخروی سزا کی وعید کے بجائے  خود اپنی ذات سے   جنگ قرار دے کر  مقابلہ کے لیے تیار رہنے کاچیلنج دیدیا ہے  چنانچہ اللہ تعالیٰ کاارشاد گرامی ہے :

اے ایمان والو ! تم اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو  پھر اگر تم نہ چھوڑو گے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لئے خبردار ہوجاؤ اور اگر تم نے توبہ کرلی تو تمہارا اصل زر تمہارے لئے ہے، نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے گا([1])۔

ایک دوسرے مقام پر ارشاد قرآنی ہے : جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت کے دن) نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہو جس کے حواس کھو دئے ہوں شیطان نے چھو کر، یہ اس لئے کہ انہوں نے کہا تجارت درحقیقت سود کے مانند ہے۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا، اور سود کر حرام کیا۔ پس جس کو نصیحت پہنچی اس کے رب کی طرف سے پھر وہ باز آگیا تو اس کے لئے جو ہوچکا اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جو پھر (سود کی طرف) لوٹے تو وہی دوزخ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے([2])۔

سورہ آل عمران میں ہے :اے ایمان والو ! نہ کھاؤ سوددوگناچوگنا اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاؤ ([3])۔

سورہ روم میں ہے :ا ورجو تم سود دو کہ لوگوں کے مال بڑھیں (اضافہ ہو) تو (یہ) اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا اور جو تم اللہ کی رضا چاہتے ہوئے زکوٰۃ دیتے ہو تو یہی لوگ ہیں (اپنا مال اور اجر) چند دو چند کرنے والے ([4])۔

اور حدیث میں بھی اس پر شدید وعید آئی ہے  صرف چند صحیح احادیث ذکر کی جاتی ہیں

(1 )۔۔الربا ثلاثة وسبعون باباً أيسرها مثل أن ينكح الرجل أُمَّهُ،

حضرت ابوہریرہ فرماتے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سود (میں) ستر گناہ ہیں سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے جیسے مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔  ([5])

(2 )۔۔درهم ربا يأكله الرجل وهو يعلم أشدُّ من ستٍّ وثلاثين زنية

حضرت عبداللہ بن حنظلہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا سود کا وہ ایک درہم جو انسان جانتے بوجھتے کھاتا ہے ٣٦ مرتبہ بدکاری سے زیادہ سخت گناہ ہے([6])۔

(3 )۔۔لعن رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: آكل الربا، وموكله، وكاتبه، وشاهديه ، وقال:  هم سواء

حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سود لینے والے پر سود دینے والے پر سودی لین دین کا کاغذ لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر سب ہی پر لعنت فرمائی ہے نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ سب (اصل گناہ میں) برابر ہیں اگرچہ مقدار کے اعتبار سے مختلف ہوں([7])

بحث اول ۔۔۔۔۔ربا اور سود کیا ہے

سود کی دو قسمیں ہیں :  ایک  قسم  ربا القرض النسیئہ:قرضے پر اضافہ یعنی قرضے کی اصل راس المال کی اوپر کوئی اضافی رقم ربا ہے۔ اسے” رباالجاھلیہ‘‘ یا ’’رباالدین‘‘ وغیرہ بھی کہتے ہیں۔

دوسری   قسم  ربا الفضل: زیادتی کا رِبا۔ اس کادوسرا نام’’ ربا الحدیث‘‘ ہے۔ اسے ربا الحدیث اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ممانعت ان احادیث سے ثابت ہے، جس میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے 6 مختلف قسم کے باہم ہم جنس تبادلے (بارٹر)میں اضافے اور ادھار کو ربا قرار دے کر منع فرمادیا۔ وہ چھ اشیا درج ذیل ہیں: گندم،جو، نمک، کھجوریں،سونا اور چاندی۔

چند صحیح  احادیث درج کی جاتی ہیں

(1 )۔۔ لا تبيعوا الذهب بالذهب، إلا مثلاً بمثل، ولا تشفوا بعضها على بعض، ولا تبيعوا الورق بالورق، إلا مثلاً بمثل، ولا تشفوا بعضها على بعض، ولا تبيعوا منها غائباً بناجز. وفي رواية : لا تبيعوا الذهب بالذهب

ولا الورق بالورق إلا وزنا بوزن مثلا بمثل سواء بسواء

حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سونے کو سونے کے عوض برابر برابر ہی فروخت کرو اور کم زیادہ کر کے فروخت نہ کرو اور چاندی بھی چاندی کے عوض برابر برابر ہی فروخت کرو اور کم زیادہ کر کے فروخت نہ کرو اور ان میں سے کوئی موجود چیز غائب کے عوض فروخت نہ کرو([8])۔

(2 )۔۔ الذهب بالذهب، والفضة بالفضة، والبر بالبر، والشعير بالشعير، والتمر بالتمر، والملح بالملح، مثلاً بمثل، يداً بيد، فمن زاد أو استزاد فقد أربى الآخذ والمعطي فيه سواء

حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا سونا سونے کے ساتھ چاندی چاندی کے ساتھ گندم گندم کے ساتھ جو جو کے ساتھ کھجور کھجور کے ساتھ نمک نمک کے ساتھ برابر برابر، نقد بہ نقد فروخت کرو جس نے زیادتی طلب کی تو اس نے سودی کاروبار کیا لینے اور دینے والا دونوں گناہ میں برابر ہیں۔ ([9])

(3)۔۔ كنا نرزق تمر الجمع وهو الخلط من التمر وكنا نبيع صاعين بصاع . فقال النبي صلى الله عليه وسلم :  لا صاعين بصاع ولا درهمين بدرهم

ابوسعید خدری (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگوں کو مختلف قسم کی کھجوریں ملی ہوئی ہوتی تھیں اور ہم دو صاع کھجور ایک صاع کے عوض بیچتے تھے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دو صاع کھجور ایک صاع کھجور کے عوض نہ بیچی جائے اور نہ دو درہم ایک درہم کے عوض بیچے جائیں۔ ([10])

(4 )۔۔ الذهب بالذهب والفضة بالفضة والبر بالبر والشعير بالشعير والتمر بالتمر والملح بالملح مثلا بمثل سوا بسوا يدا بيد فإذا اختلفت هذه الأصناف فبيعوا کيف شتم إذا کان يدا بيد

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا سونا سونے کے عوض چاندی، چاندی کے بدلے گندم، گندم کے عوض جو،

جو کے عوض کھجور، کھجور کے بدلے نمک، نمک کے بدلے برابر برابر، ٹھیک ٹھیک، ہاتھوں ہاتھ ہو پس جب یہ اقسام تبدیل

ہوجائیں تو جب وہ ہاتھوں ہاتھ ہو تو تم جیسے چاہو فروخت کرو۔ ([11])

(5 )۔۔ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم استعمل رجلاً على خيبر فجاءه بتمر جنيب فقال له رسول الله

صلى الله عليه وسلم أكل تمر خيبر هكذا ؟ فقال لا والله يا رسول الله ! إنا لنأخذ الصاع من هذا بالصاعين ، والصاعين بالثلاثة . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم :  لا تفعل بع الجمع بالدراهم، ثم ابتع بالدراهم جنيباً . وقال في الميزان مثل ذلك

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو خیبر کا عامل مقرر فرمایا تو وہ عمدہ کھجور لے کر حاضر ہوا تو اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا خیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہیں اس نے عرض کیا نہیں اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم اس کا ایک صاع دو صاع کے بدلے اور دو صاع تین صاع کے بدلے لیتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایسا مت کرو گھیٹا دراہم کے بدلے فروخت کر اور پھر عمدہ کھجور ان دراہم کے عوض خرید لے۔ ([12])

(6)۔۔ لا تبيعوا الذهب بالذهب، إلا سواءً بسواء، والفضة بالفضة إلا سواءً بسواء، وبيعوا الذهب بالفضة، والفضة بالذهب، كيف شئتم  فسأله رجل فقال يداً بيد فقال هكذا سمعت

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاندی کو چاندی کے بدلے اور سونے کو سونے کے بدلے فروخت کرنے سے منع فرمایا سوائے اس کے کہ برابر برابر ہوں اور ہمیں حکم دیا کہ ہم چاندی کو سونے کے ساتھ جیسے چاہیں خریدیں اور سونے کو چاندی کے عوض جیسے چاہیں خریدا کریں ایک آدمی نے سوال کیا کہ نقد بہ نقد تو فرمایا میں نے اسی طرح سنا([13])۔

(7 )۔۔ عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم أتي وهو بخيبر بقلادة فيها خرز وذهب، وهي من المغانم تباع ، فأمر رسول الله بالذهب الذي في القلادة فنـزع وحده ، ثم قال: الذهب بالذهب وزناً بوزن وفي رواية : لا تباع حتى تفصل  وفي رواية : لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا وزنا بوزن

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک ہار لایا گیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خبیر میں تھے اس میں پتھر کے نگ اور سونا تھا اور یہ مال غنیمت میں سے تھا جو بیچا گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہار میں موجود سونے کے بارے میں حکم دیا کہ اسے علیحدہ کرلیا جائے پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سونے کو سونے کے برابر وزن کر کے

فروخت کرو۔ ([14])

(8 )۔۔ نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الورق بالذهب ديناً

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاندی کو سونے کے عوض ادھار بیع کرنے سے منع فرمایا۔ ([15])

اجماعی اور اتفاقی مسئلہ  کی نوعیت

آیات قرآنی اور مذکورہ بالا احادیث سے   سود کی دونوں اقسام کی حرمت واضح ہو گئی  ہے   اس میں  اب کوئی دو رائے نہیں کہ  ربا النسیئہ ( جسے ربا الجاہلیہ  یا ربا القرآن بھی کہا جاتا ہے )اور    ربا الفضل  فی الاشیاء الستہ( جسے ربا الحدیث  بھی کہا جاتا ہے )  قطعی  طور پر شدید ترین حرام ہےچنانچہ علامہ ابن قدامہ  لکھتے ہیں :

فهذه الأعيان المنصوص عليها ثبت فيها الربا بالنص والإجماع، واختلف أهل العلم فيما سواها

ان چھ   منصوص اشیاء میں  نص اور اجماع امت سے  سود ثابت  ہے البتہ ان کے علاوہ دیر  اشیاء میں اہل علم کا اختلاف ہے ۔([16])

اور علامہ ابن حزم ظاہری لکھتے ہیں :

وكذلك الذي ذكرنا من وقوع الربا في الأنواع الستة المذكورة في البيع والسلم فهو إجماع مقطوع به، وما عدا الأنواع المذكورة فمختلف فيه۔  ہم نے جو مذکورہ چھ اشیاء  کا  بیع اور  سلم  میں سود ی معاملہ کا ذکر کیا  ہے اس پر قطعی اجماع ہے  البتہ اس کے علاوہ اشیاء میں اختلاف ہے ([17])

علامہ نووی لکھتے ہیں :وأجمع العلماء على جواز بيع الربوي بربوي لا يشاركه في العلة متفاضلاً ومؤجلاً، وذلك كبيع الذهب بالحنطة، وبيع الفضة بالشعير وغيره من المكيل ، وأجمعوا على أنه لا يجوز بيع الربوي بجنسه وأحدهما مؤجل، وعلى أنه لا يجوز ال باہمی اضافہ إذا بيع بجنسه حالاً كالذهب بالذهب، وعلى أنه لا يجوز التفرق قبل التقابض إذا باعه بجنسه أو بغير جنسه مما يشاركه في العلة كالذهب بالفضة، والحنطة بالشعير وعلى أنه يجوز ال باہمی اضافہ عند اختلاف الجنس إذا كان يداً بيد، كصاع حنطة بصاعي شعير، ولا خلاف بين العلماء في شيء من هذا

اس پر تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ  جن اشیاء میں علت  مشترک نہ ہو  ان میں کمی بیشی  اور ادھار کے ساتھ  بیع  جائز ہے  جیسے سونے کو گندم  یا چاندی کی جو کے ساتھ  بیع کی جائے  اور اس بات پر بھی اجماع ہے کہ ایک ہی جنس کی اشیاء   کی  اضافہ یا ادھار پر بیع جائز نہیں  جیسے سونے  کی سونے کے ساتھ خرید وفروخت کرنا اور  اس پر بھی اجماع ہے کہ   اگر  ایک  ہی جنس یا ایک ہی علت والی  اشیاءکی    خرید و فروخت کی ہو تو قبضہ سے پہلے الگ ہونا جائز نہیں ہوگا اسی طرح اس پر بھی اجماع ہے کہ اگر جنس تبدیل ہو تو      موقع پر باہمی مقدار میں اضافہ کے ساتھ  خرید و فروخت جائز ہے جیسے ایک صاع گندم کے بدلہ دو صاع جو خریدنا   ا؛بتہ اس میں ادھار ناجائز ہوگا اس مین اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں  ہے    ([18])

مسئلہ اختلافی  کیا ہے

تا ہم  اس میں اختلاف ہے کہ   حدیث میں مذکور چھ اشیاء کی حرمت  ان ہی میں منحصر ہے یا ان میں کسی موجود علت کی بنا پر  ان پر قیاس کرتے ہوئے  ان جیسی دوسری اشیاء میں  بھی حرمت ہوگی

اس میں متعددفقہی اقوال  ہیں  ([19])؟

قول اول :

امام ابوحنیفہ  ،امام ثوری،امام نخعی رحمۃ اللہ علیہم  کے نزدیک ہر ناپ تول والی چیز میں   ربا ہے    اشیاء اربعہ میں  کیل (ناپ تول )  و جنس اور سونا چاندی میں وزن و جنس   علت ہے اور یہی امام احمد رحمہ اللہ کا مشہور قول ہے  ۔اس کے تحت  ناپ اور تول کی جانی والی تمام اشیاء   میں  باہمی اضافہ  ناجائز ہے خواہ قابل خوراک ہو  ں یا نہ ہوں مثلا  غلہ، لوہا ،تانبا،  کپاس وغیرہ  لیکن  جن  اشیاء   کی پیمائش یا وزن نہ کیا جاتا ہو بلکہ گنا جاتا ہو خواہ وہ  قابل خوراک   ہوں یا نہ ہوں   تو ان میں باہمی اضافہ جائز ہے

قول دوم :

امام مالک رحمہ اللہ(  اور یہی قول  علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے )کے نزدیک سونا چاندی میں  ثمن  ہونا  علت ہے  اور باقی جملہ اشیاء  میں قوت و ادخار (غذا اور قابل ذخیرہ اندوزی) ہونا  علت ہے ۔

قول  سوم :

امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک سونا چاندی میں  ثمن  ہونا  علت ہے ۔ اور اشیاء اربعہ میں  مطعوم(قابل خوراک)  ہونا  علت ہے خواہ  وزن کیا جاتا ہو ،پیمائش کی جاتی ہو یا پھر گنتی کی جاتی ہو لہذا  سونا چاندی کے علاوہ  دیگر تمام ناقابل  خوراک  اشیاء میں    باہمی اضافہ جائز ہے

قول چہارم:

اہل ظواہر اور اور دیگر کچھ اہل علم  کے نزدیک حرمت  ربا الفضل صرف  حدیث میں ذکر شدہ چھ اشیاء میں ہی منحصر ہے ۔

قول پنجم:

امام محمد بن سیرین، حماد بن سلیمان اور سعید بن جبیر  کے نزدیک ہر  چیز  کا اس کی جنس سے تبادلہ ربا الفضل ہے  خواہ وہ عددی (گنتی والی ) ہی کیوں نہ ہوں .

امام رازی  کا تفسیر  رازی  میں  علل ربا سے متعلق  اختلاف میں طرز عمل اور انداز ترجیح

امام رازی رحمہ اللہ نے   سورہ بقرہ کی آیت نمبر 275 کے تحت مسئلہ سود پر بحث کرتے ہوئے  مذکورہ مسئلہ میں  فقہی اختلاف بیان  کرنے کے بعد  دیگر ائمہ  کے  دلائل  ذکر کرنے کے  بجائے  صرف اہل ظواہر کے دلائل      کرکے اپنے طرز عمل سے  اس قول کو  ترجیح  دے رہے ہیں  کہ ربا الفضل صرف  حدیث میں ذکر شدہ چھ اشیاء میں ہی منحصر ہے ۔

امام رازی رحمہ اللہ اگر چہ فقہ میں امام شافعی رحمہ اللہ کے پیروکار تھے([20]) مگر وہ  عموما قدیم علماء کے اقوال کو جانچے اور پرکھے بغیر  قطعا قبول نہیں کرتے تھے اور نہ ہی وہ اندھی تقلید کے قائل تھے بلکہ وہ ائمہ کے اقوال و آراء کو اپنے اعلی تحقیق معیار پر جانچنے کے بعد ہی قبول یا مسترد کیا کرتے تھے   متعدد مقامات پر  شافعی المسلک ہونے   کے باوجود  دوسرے    مسالک کے اقوال کو ترجیح دی  اور وہ  اندھی اور جامد  تقلید کے  شدید ترین مخالف تھے  چنانچہ امام رازی رحمہ اللہ اپنی تفسیر مفاتیح الغیب  میں  کفار کی اپنے اباؤ اجداد کی تقلید کے ضمن میں  تقلید جامد کی مذمت  کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

وكل ذلك يدل على وجوب النظر والاستدلال والتفكر وذم التقليد ۔۔۔ ومن دعا إلى التقليد كان على

خلاف القرآن (یہ اس بات کی دلیل ہے کہ غور و فکر اور استدلال لازمی ہے اور اندھی تقلید مذموم کام ہے۔۔۔ اور جو شخص بھی

ایسی تقلید کی دعوت دیتا ہے وہ قرآن  کی مخالفت کرتا ہے([21])۔

اسی اصول کے تحت  انہوں نے  مسئلہ سود میں صرف اہل ظواہر کے دلائل بیان کرکے   اپنے  انداز بیان سے  عملی طور پر ترجیح   دے دی  ہے

اہل ظواہر کے دلائل

امام رازی اہل ظواہر کے دلائل  بیان کرتے ہوئے  لکھتے ہیں :

اہل ظواہر  کی پہلی دلیل یہ ہے کہ  حضور  ﷺ نے مکیلات ( تول والی اشیاء ) اور مطعومات ( کھائے جانے والی اشیاء )میں سے صرف چار اشیاء کا ذکر کیا ہے اگر یہی حکم تمام مکیلات اور مطعومات کا حکم ہوتا تو صرف مختصر جملہ سے  حکم اصلی بیان کردیتے کہ مکیل کو مکیل کے بدلے اور مطعوم کو مطعوم کے بدلے  اضافے کے ساتھ مت خریدیں  لیکن اس اختصار کے بر عکس چار اشیاء کا گننا اس بات کی دلیل ہے کہ حرمت انہی میں منحصر ہے ۔

دلیل دوم :

﴿ أَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ ﴾  سے ربا الفضل کی حلت معلوم ہوتی ہے مگر چھ چیزوں  کے بارے میں  ایک خبر واحد کی وجہ سے  اس ربا الفضل  کو بھی ان اشیاء  پر  قیاس کرکے حرام قرار دیا گیا  گویا چھ چیزوں میں خبر واحد سے اور   دیگر اشیاء میں قیاس سے تخصیص کردی اس طرح تو خبر واحد اور قیاس ظاہر قرآن سے زیادہ قوی قرار پائے  اس لیے خبر واحد اور قیاس سے  قرآن کی تخصیص جائز نہیں ۔

دلیل سوم :

مورد نص  میں تعلیل حکم کے واسطے کے بغیر محل نص کو غیر محل نص میں لاگو کرنا جائز ہی نہیں یعنی کسی بھی حکم کو  دوسرے مقام پر لاگو کرنا جائز نہیں ایک تو اس وجہ سے کہ اس کے لئے  حکم خدا  کی تعلیل علت ( وجوہات و اسباب وغیرہ) درکار ہوگی جس کا علم محال ہے اور دوسری وجہ یہ  ہے کہ حکم صرف اپنے مورد  اور مقام کے لئے واضح ہوتا ہے باقی ہر جگہ ظنی ہوتا ہے اور صرف ظن اور گمان پر ایک حکم لاگو کرنا بھی ناجائز ہے([22]) ۔

مزید توضیحات

چونکہ تفسیر رازی کوئی فقہی کتاب نہیں جس میں امام موصوف فقہاء کرام کے اقوال فقہیہ  کے دلائل  کا  تفصیل سے جائزہ لیتے انہوں

نے   اس موقع پر  تفسیر رازی کے قارئین کو   اپنے نقطہ  نظر سے  آگاہ کردیا      کہ ان کے خیال مین اہل ظواہر کا قول زیادہ قریب الیٰ الفہم ہے    اس سلسلہ مین اہل ظواہر  کے مزید دلائل  درج ذیل  کیے جاتے ہیں تاکہ اندازہ کیا جاسکے  کہ ان کے قول  کی بنیاد کس حد تک مضبوط ہے اور امام رازی  رحمہ اللہ   اسے کیوں ترجیح دے رہے ہیں

علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:  حضور ﷺ نے     جن اشیاء کو  سود  یا  حرام  بیان  کردیا ہے وہ  یقینا حرام ہیں  لیکن جن چیزوں کی حرمت ہی بیان نہیں کی وہ حلال ہی ہوں گی ورنہ  یہ لازم  آئے گا کہ  حضور ﷺ نے  اپنی امت سے کچھ حرام اشیاء کی حرمت ہی بیان نہیں کی  اور یہ آیت قرآنی  کے بالکل برعکس ہے کیونکہ  اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے : حالانکہ وہ تمہارے لئے واضح کرچکا ہے جو اس نے تم پر حرام کیا ہے([23])

تو کیا ایسا ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو حرام قرار دیا ہو مگر آپ ﷺ نے اسے  بیان ہی نہ کیا ہو؟([24]) اور سود تو  وہ حرام ہے جس  سے باز نہ آنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان جنگ ہے  ۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ جن   فقہاء کرام نے   ان چھ اشیاء سے کوئی  علت مستنبط کی اور پھر دوسری اشیاء پر منطبق  کر کے  انہیں بھی  ربالفضل میں شامل  کیا ہے   انہوں نے خود  اپنی اس مستنط  علت کی خلاف ورزی کی ہے   مثلا فقہاء  احناف نے کیل اور وزن کو علت قرار دیا   تھا  مگر انہوں  نے خود ہی اسے موزون اشیاء کی  بیع سلم   (مثلا لوہا وغیرہ ) میں اسی علت  کو  منسوخ کردیا     اور اسے درست قرار دیا حالانکہ  علت وزن موجود  تو ہے مگر موزون اشیاء کی بیع   سلم کی صورت میں  اس کے جواز کے قائل ہیں ([25])

اور فقہاء مالکیہ  نے قوت و ادخار (غذا ہونا اور قابل ذخیرہ اندوزی ہونا) کو علت قرار دیا مگر  انہیں بھی تناقض کا سامنا کرنا  پڑ رھا

ہے  کیونکہ  اس  علت کی صورت میں حدیث میں بیان کردہ  اشیاء ستہ میں ہی  سے ایک چیز ربا الفضل سے خارج ہوجاتی ہے  اور وہ ہے نمک کیونکہ یہ غذا تو ہے نہین بلکہ  اگر خالص  اور کچھ زیادہ مقدار کھائی جائے تو مہلک ثابت ہو سکتی ہے  تو یہ قابل غذا تو نہ ہوئی  لہذا اس میں  علت نہ ہونے کی وجہ سے  تفاضل جائز ہونا چاہیے مگر  دوسری جانب سے یہ اشیاء ستہ میں بذات خود شامل ہے  جس کی وجہ سے اس میں تفاضل سود اور حرام ہوگا لہذا قوت  وادخار  (غذاہونا اور قابل ذخیرہ اندوزی ہونا) ہونا بھی علت نہیں بن سکتا ([26])

علامہ ابن حزم مزید لکھتے ہیں کہ  فقہاء شوافع  کے بقول اگر مطعومات ہونا  ہی علت ہوتا تو آپ ﷺ اشیاء اربعہ کے بجائے صرف ایک  چیز بیان کرتے ، چار چیزوں کا الگ الگ بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں  ان اشیاء کی علت مراد   نہیں  بلکہ چاروں اشیاء  بذاتہ  مراد ہیں

اور علامہ ابن سیر کا قول تو خود حضور ﷺ کے عمل کے خلاف ہے کیونکہ  حضور ﷺ سے خود سات  غلاموں کے بدلے  ایک لونڈی   خریدنا ثابت ہے ([27])علاوہ ازین  آپ  ﷺ سے ایک  غلام کے بدلے دو غلام غلاموں کا خریدنا بھی ثابت ہے([28])

اس طرح واضح طور  پر حرام  نہ قرار دی گئی  اشیاء کو   اجتہادی  بنیاد پر   اخذ کردہ علت  کے ذریعہ  حرام    قرار  دینے  کی وجہ سے      اصولی طور پیچیدگی پیدا ہو رہی ہے۔ایک ہی  علت والی ایک چیز کو حلال اور دوسری جگہ  حرام قرار دیا جا رہا ہے

جب کہ   حضور ﷺ کا فرمان تو یہ ہے :  ما أحل الله في كتابه فهو حلال ، وما حرم فهو حرام ، وما سكت عنه فهو

عافية ، فاقبلوا من الله العافية ، فإن الله لم يكن نسيا ” ثم تلا هذه الآية وما كان ربك نسيا ([29])

جو چیز  اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حلال  قرار دی ہے وہ حلال ہے  اور جو حرام قرار دی ہی وہ حرام ہے  اور جن  اشیاء کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خاموشی اختیار کی ہے  وہ معاف ہیں  سو اللہ کی معافی کو قبول کروکیونکہ اللہ تعالیٰ بھولنے والا نہیں پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی   : اور تیرا رب بھولنے والا نہیں  ([30])

حدیث میں بیان کردہ چھ اشیاء   کے علاوہ   وہ تمام اشیاء جو کسی بھی  فقیہ کی اجتہاد پر مبنی علت کے سبب حرام قرار دی جارہی ہیں  کیا وہ    ان میں شامل نہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے خاموشی اختیار کی ہے ؟

جب اللہ تعالیٰ نے خود خاموشی اختیار کی ہے- حضور ﷺ  کا فرمان بھی حقیقت میں  اللہ ہی کا حکم ہے([31]) —  تو  ایسی اشیاء پرکن وجوہات کی  وجہ سے  اباحت  کے بجائے حرمت کا حکم لگایا جاتا ہے  ؟

علامہ ابن تیمیہ نے امام احمد اور دیگر فقہاء  کے حوالے سے ایک اصول نقل کیا ہے  کہ عبادات میں  اصل توقیف اور عادات میں اصل     اباحت یا معافی ہے        ۔ اس اصول کے تحت   کسی بھی حلال چیز کو  کسی اجتہادی علت  کی بنا پر حرام قرار دینا  ایک اہم سوالیہ نشان  ہی ہوگا  ([32])

اسی طرح  علامہ ابن عابدین  نے بھی  جمہور احناف و شوافع کے حوالہ سے  لکھا ہے کہ اصل اشیاء میں اباحت ہے([33])

خلاصہ

امام رازی رحمہ اللہ  کو اہل ظواہر کا قول اس لیے زیادہ  راجح معلوم ہورہا ہے   کہ سود جیسے  گناہ   جس کی اتنی شدید وعید پر  کہ اسے زنا سے بھی شدید قرار دیا گیا   کونبی کریم ﷺ نے کیوں واضح طور پر بیان   نہیں کیا  جس کی وجہ سے فقہاء امت میں اتنا شدید اختلاف رو نما ہوگیا  کہ کچھ اشیاء ایک  کے نزدیک حلال  ہیں تو دوسرے امام اور فقہیہ کے نزدیک سود اور حرام ہیں ؟

اگر واقعی ہی  احادیث میں مذکور چھ اشیاء     کے بجائے ان میں  مشترکہ کوئی علت    ہی وجہ حرمت ہے تو آپ ﷺ نے اتنے طویل جملوں کے بجائے  صرف اتنا  ہی کیوں نہیں بتادیا کہ فلاں  علت جن اشیاء میں موجو د ہوگی  وہ حرام  ہے      جیسے  شراب   کی حرمت  میں واضح اعلان فرما دیا: کل مسکر حرام ) ہر نشہ آور چیز حرام ہے ) ([34])

اشیاء  متعددہ میں مشترکہ علت کی موجودگی کے باوجود اس کا بیان نہ کرنا اور صرف چند اشیاء کا  واضح نام لے کر بیان کرنا کیا اس بات کی دلیل ہی نہیں  کہ ربا الفضل مذکورہ اشیاء  میں  ہی منحصر  ہے ؟  کیا  موقع بیان میں جہاں وضاحت  کی ضرورت ہو وہاں  کسی حکم کا  عدم بیان  اس  حکم  ہی کی  عدم  دلیل نہیں قرار پاتا  ؟

کیا آپ ﷺ  زنا سے  زیادہ سخت  گناہ  کے بیان کو اتنا ادھورا چھوڑ دیا  کہ  کسی  کو سمجھ ہی نہ آئی ۔اس سے تو یہ لازم آئے گا کہ  آپ ﷺ نے مکمل پیغام خداوندی امت تک نہیں پہنچائے  نعوذ باللہ  من ذلک  ۔ حالانکہ حضور ﷺ کا واضح  اعلا ن ہے   :  ما بقي شيء يقرب من الجنة ويباعد من النار إلا وقد بين لكم([35])

جنت سے قریب اور جہنم سے دور کرنے والی ہر چیز بیان کردی گئی ہے

اس کی بنیادی وجہ اور سبب یہی ہے کہ  حضور ﷺ نے   جس چیز (علت ) کوبیان کرنا   مناسب اور ضروری ہی نہیں سمجھا   اسے  فقہاء

کرام نے  ایک   اصول ،قاعدہ اور ضابطہ قرار دیا۔

پھر تو  سود جیسے مسئلہ میں امت  امیہ    کا  ایک بڑا طبقہ  پہلی صدی ہجری ہی سے ایک سے زائد  فقہی مکاتب  یا کم از کم   کسی  ایک  مجتہد کی

نگاہ میں  ضرور مرتکب گناہ کبیرہ  ہوتا رہا۔

بالفاظ دیگر ائمہ اسلام  رحمہم اللہ کی بیان کردہ علتوں میں سے کسی ایک امام   ہی کی  کوئی ایک علت واقعۃ   حرمت ربا  کی حقیقی علت  ہے تو

بقیہ   دیگر  حضرات   کے متبعین  تو پہلی صدی سے آج تک سود   ی معاملات مین ملوث رہ کر خدا سے جنگ کرتے رہے

یہاں یہ بات بھی قابل غور و فکر  ہے  اگر ائمہ کرام رحمہم اللہ کی بیان کردہ تمام اجتہادی علتوں  ( جن مین شدید اختلاف ہے)  میں سے   کسی ایک علت پر مبنی حکم پر عمل پیرا ہواجائے    جو کہ باقی تمام  بیان شدہ  علتوں کے  مقابلہ میں یقینا  اقلیت میں ہوگی  تو یہ  اجتہاد مجتہد   صحیح  محتمل للخطاء   قرار پاسکتا ہے   تو  ربا الفضل    کا  اشیاء ستہ میں انحصار    بطریق اولیٰ  اجتہاد مجتہد   صحیح  محتمل للخطاء    قرار پاسکتا   ہے کیونکہ  اس کے لیے تو حضور ﷺ کی جانب سے موقع بیان پر عدم بیان   کاواضح  اشارہ   کے   موجود ہے اور اس صورت میں کسی پیچیدگی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا  اور ان تمام تناقضات سے  گلو خلاصی ہوجائے گی  جو اجتہادی علت     کو اختیار کرنے کی وجہ سے  پیش آرہے ہیں

[1]               سورہ بقرہ : 278،279(ترجمہ حافظ نذر احمد)

[2]       سورہ بقرہ :  275.

[3]        سورہ آل عمران : 130

[4]        سورہ روم : 39

[5]        مستدرک حاکم حدیث نمبر 2314؛ سنن ابن ماجہ: حدیث نمبر 2274

[6]       مسند احمد : حدیث نمبر 21957 اور علامہ البانی نے اس کی تصحیح کی ہے    دیکھیئے :سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ  حدیث نمبر 1033

[7]       مسلم :حدیث نمبر 1598

[8]        بخاری : حدیث نمبر 2177

[9]       مسلم : حدیث نمبر 1587

[10]       مسلم : ج 3 ص 1211

[11]       مسلم : حدیث نمبر 1588

[12]        بخاری : حدیث نمبر 2201

[13]       مسلم :  ج صفحہ 1213

[14]       ایضا

[15]       مسلم :  ج صفحہ 1212

[16]        مغنی ابن قدامہ ج 6 ص 54

[17]        المحلى ج8 ص468

[18]         شرح مسلم ج11 ص9.

[19]               مغنی ابن قدامہ ج 6 ص 50؛ الربا محرم كل مكيل أو موزون إذا بيع بجنسه متفاضلا فالعلة فيه لكيل مع الجنس مع الجنس أو الوزن مع الجنس فإذا بيع المكيل أو الموزون بجنسه مثلا بمثل جاز البيع وإن تفاضلا لم يجز    ۔مختصر القدوری  باب الربا ص87 ، نقلها عن أحمد الجماعة ، وذكرها الخرقي ، وابن أبي موسى ، وأكثر الأصحاب .وهو قول النخعي ، والزهري ، والثوري ، وإسحاق۔مغنی ج 6 ص 54؛ قال داود الظاهرى وسائر أهل الظاهر والشيعة والغاسانى وسائر ثقاة الناس لا تحريم في الربا في غيرها وحكاه صاحب الحاوى عن طاوس ومسروق والشعبى وقتادة وعثمان البتى   دیکھیئے مجموع شرح مھذب  ج 9 ص 489؛ وممن قال: لا ربا إلا في الأصناف المذكورة: طاوس، وقتادة، وعثمان البتي، وأبو سليمان، وجميع أصحابنا ۔محلی ابن حزم ج 7 ص 403؛ موسوعہ فقہیہ  کویتیہ ج 22 ص 57

20]            علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں  الملقب فخر الدين، المعروف بابن الخطيب، الفقيه الشافعي امام رازی کا لقب فخر الدین تھا اور وہ ابن الخطیب کے نام سے مشہور تھے اور وہ شافعی فقیہ تھے    دیکھیئے :وفیات الاعیان ج 4 ص 449 ؛ علامہ ابن کثیر  لکھتے ہیں : ابن خطيب الري الفقيه الشافعي أحد المشاهير بالتصانيف الكبار والصغار نحو من مائتي مصنف         البدایہ والنہایہ ج 17 ص 11

[21]            تفسیر رازی ج 2 ص 84۔

[22]             تفسیر رازی ج 7 ص 73

[23]             سورہ انعام : 119

[24]             محلی ابن حزم  ج 7 ص 403

[25]             چناچہ علامہ ابن قیم لکھتے ہیں : أجمعوا على جواز إسلامهما في الموزونات من النحاس والحديد وغيرهما، فلو كان النحاس والحديد ربويين لم يجز بيعهما إلى أجل بدراهم نقداً، فإن ما يجري فيه الربا إذا اختلف جنسه جاز التفاضل فيه دون النساء، والعلة إذا انتقضت من غير فرق مؤثر دل على بطلانها، وأيضاً فالتعليل بالوزن ليس فيه مناسبة فهو طرد محض، بخلاف التعليل بالثمنية فإن الدراهم والدنانير أثمان المبيعات، والثمن هو المعيار الذي يعرف به تقويم الأموال فيجب أن يكون محدوداً مضبوطاً دیکھیئے :اعلام الموقعین ج 4 ص 401

[26]             المحلى ج8 ص469.

[27]          فاشتراها رسول الله صلى الله عليه وسلم بسبعة أرؤس   دیکھیئے مسلم ج 2 ص 1045 ،

[28]          دیکھیئے : أن النبي -صلى الله عليه وسلم- اشترى عبدا بعبدين  دیکھیئے :ابو داؤد  ج 5 ص 245

[29]             مريم: 64

[30]            مستدرک  ج 2 ص 442

[31]             اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى سورہ نجم :2،3

[32]           كان أحمد وغيره من فقهاء أهل الحديث يقولون: إن الأصل في العبادات التوقيف فلا يشرع منها إلا ما شرعه الله تعالى. وإلا دخلنا في معنى قوله: أم لهم شركاء شرعوا لهم من الدين ما لم يأذن به الله . والعادات الأصل فيها العفو فلا يحظر منها إلا ما حرمه وإلا دخلنا في معنى قوله: قل أرأيتم ما أنزل الله لكم من رزق فجعلتم منه حراما وحلالا ولهذا ذم الله المشركين الذين شرعوا من الدين ما لم يأذن به الله وحرموا ما لم يحرمه   دیکھیئے :مجموع الفتاوى” ج 16 و 17 ص 29

[33]         ففي تحرير ابن الهمام المختار الإباحة عند جمهور الحنفية والشافعية اهـ وفي شرح أصول البزدوي للعلامة الأكمل قال أكثر أصحابنا وأكثر أصحاب الشافعي إن الأشياء التي يجوز أن يرد الشرع بإباحتها وحرمتها قبل وروده على الإباحة، وهي الأصل فيها حتى أبيح لمن لم يبلغه الشرع أن يأكل ما شاء وإليه أشار محمد في الإكراه حيث قال: أكل الميتة وشرب الخمر لم يحرما إلا بالنهي، فجعل الإباحة أصلا والحرمة بعارض النهي، وهو قول الجبائي وأبي هاشم وأصحاب الظاهر

دیکھیئے : رد المحتار  ج4 ص 161(باب استيلاء الكفار على بعضهم بعضا أو على أموالنا)

[34]        بخاری ج 5 ص 161

[35]      . رواه الطبراني في الكبير  حدیث نمبر 1647 وصححه الألباني في الصحيحة  حدیث رقم 1803۔

An Investigative Analysis of the Reasons for the Prohibition of Usury in the Light of Tafsir Razi

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top