عورت کا وراثت ميں نصف حصہ اور اسلامي احکام ميں عدل

اسلامی احکام کی حکمتوں سے ناواقف کچھ لوگوں کو وراثت   میں عورت کو مرد کی نسبت کم حصہ ملنے  پر بھی شبہات ہیں حالانکہ اگر بغور دیکھا جائے تو اس مین بھی دین اسلام کے احکامات میں موجود حکمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے

 اگر چہ ایک بندہ مسلم کی شان آمنا وسلمنا  وسمعنا واطعنا (ایمان لے آئے  تسلیم کر لیا سن اور مان لیا )ہے کیونکہ جس طرح آنکھ کی قوت بصارت محدود فا صلہ تک کام آسکتی ہے کان ایک حد تک کی آواز کا ادراک کر سکتا ہے  ناک محدود فاصلے تک کی مشموم اشیاء کو سونگھ سکتی ہے زبان کا دائرہ کار بھی محدودہے ،اسی طر ح عقل کا بھی دائرہ کار محدودہے اس سے باہر اسکی رسائی ہی ممکن نہیں۔جس طرح ایک  عام آدمی دیوار کے باہر اشیاء کو با لفعل دیکھنے کا دعوی کرے یا سینکڑوں میل دور کی انسانی آوازبغیر کسی ذریعے کے اپنی قوت سماعت سے سننے کا دعوی کرے تو ساری دنیا اسے پاگل کہے گی اسی طرح عقل کے دائرہ کار سے باہر کے امور پر رائے زنی کرنے والے میں  احتیاط کا دامن تھامنا ہوگا

اس موقع پر بھی اگر   بنظر غائر دیکھا جائے تو عورت کو مردکی نسبت زیادہ فائدہ ہے ،کیونکہ تین سوروپے  میں سے اگر عورت کو ایک سوروپیہ مل گیا وہ با لکل اضافی اور بچت ہے ،کیونکہ عورت کے جملہ اخراجات روٹی، کپڑا اورمکان وغیرہ مردکے ذمہ ہیں، اس پرتو اپنی ذات کا خرچ  بھی ذمہ نہیں  ہے   باقی لوگ تو دور کی بات ہیں  اس پر والدین کا بوجھ ، نہ ہی اولاد کا خرچ اور نہ ہی عزیز واقارب کا نان نفقہ کچھ بھی لازمی نہیں ، اس کے برعکس مرد کو  اگر دو سو روپیہ تو ملے تو کیا ہوا   اس  پر تو اس کے اپنے ذاتی اخراجات کے علاوہ بیوی کے جملہ اخراجات ،والدین کی خدمت، دوست احباب کی مہما نداری ،عزیز و اقارب کی ا مداداور اولاد کے جملہ اخراجات  سب  ہی کچھ ہیں ۔

 انصاف کا تقا ضا بہ عقل  انسانی تو یہ چاہتا ہے کہ تین سو روپے سارے مردکو ملنے چاہئیں، مگر خالق کائنات نے دور جاہلیت کی مظلوم،ظلم کے معاشرہ میں پسی ہوئی  اورمحروم عورت کی حوصلہ افزائی دلجوئی کی خاطر مرد کی وراثت کا ۵۰ فی صد دیدیا یہ صرف اسلام کی جانب سے عورت کے احترام کو اجاگر کرنا تھا ورنہ یہ رقم  تو اس کی مکمل بچت بن سکتی ہے ۔

اسی پر بس نہیں بلکہ  بعض مسائل میں عورت کا حصہ مرد کے برابر ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے

وَاِنْ كَانَ رَجُلٌ يُّوْرَثُ كَلٰلَةً اَوِ امْرَاَةٌ وَّلَهٗٓ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ۚ فَاِنْ كَانُوْٓا اَكْثَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَھُمْ شُرَكَاۗءُ فِي الثُّلُثِ مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُّوْصٰى بِھَآ اَوْ دَيْنٍ ۙغَيْرَ مُضَاۗرٍّ ۚ وَصِيَّةً مِّنَ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَلِيْمٌ

(اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا مگر اس کے بھائی یا بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ۔ اور اگر ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ حصے بھی) ادائے وصیت و قرض بعد کے بشرطیکہ انسے میت نے کسی کا نقصان نہ کیا ہو (تقسیم کیے جائیں گے)

یہ خدا کا فرمان ہے اور خدا نہایت علم والا (اور) نہایت حلم والا ہے۔) اس میں  تصریح ہے کہ میت کے اخیافی (ماں شریک )بھا ئی کو میت کی اخیا فی بہن کے برابر حصہ ملتا ہے ۔اور ایک مقام پر تو مرد محروم اور عورت کو ساری وراثت مل جاتی ہے،مثلا میت کے ورثاء میں صرف نانا اور نانی ہوں تو نانی تنہا وارث ہوتی ہے نانا محروم ہوجاتا ہے کیا کسی بھی  مذہب میں ایسا ممکن ہے عورت کو تنہا وارث  قرار دیا گیا ہو اور مرد محروم ہو،یہ اعزاز صرف اسلام نے دیا ہے ۔اسلام نے تو عورت پر اسکی حیثیت ، طاقت، قوت اورگنجائش کے مطابق ذمہ داری ڈالی تھی اور  اس پر زیا دہ بوجھ نہ ڈالا جانے سے محفوظ کرنے کا اہتمام کیا ہے ،مگر غیر اسلامی معاشرے نے مرد کے برابر بلکہ مرد سے دگنا بوجھ ڈال دیا کہ عورت مرد کی طرح کمائے بھی اور گھر بھی سنبھالے، اور ایسے حالات میں بھی ملازمت کرے جب دوران حمل و دوران رضاعت اسے آرام اور سکون کی زیادہ ضرورت ہو، کیا یہ عورت سے انصاف ہے یااس پر اضافی بوجھ ہے  اس کا فیصلہ آج کی اسی عورت پر چھوڑا جاسکتا ہے ۔  اسلام نے تو عورت کو ذہنی دبا ؤ سے محفوظ رکھنے کیلئے گواہی کے میدان میں اس کے ساتھ دوسری عورت کو معاون و مددگار بھی مقرر کر دیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

ان  تضل  احداھما فتذکر احداھما الا خری

اگر ایک بھول جائے تو دوسری یاد دلا دے

اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورت مرد کے مقابلے میں نصف انسان ہے ورنہ نانا کو محروم کرتے ہو ئے نانی ساری وراثت نہ لے جاتی اور خاص عورتوں کے معاملات میں صرف عورت کی گواہی معتبر نہ ہوتی۔بلکہ عورت پر کسی بھی قسم کا اضافی بوجھ کم ازکم رکھنے کی کوشش ہے۔جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ عورت کی تخلیقی ساخت ہی کچھ اس طرح ہے کہ وہ مرد کی طرح امور کی سرانجام دہی سے قاصر ہے ۔

 حقیقت یہ ہے کہ آج کل کا دین سےنا واقف مرد عورت کو مرد کے شانہ بشانہ کے پر فریب نعرہ کے میں مغالطہ دیتے ہوئے اپنے فرائض سے پہلو تہی کرنا چاہتا ہے اور اپنے حصے کا کام بھی عورت پر لادنا چاہتا ہے جب کہ اسلام تو عورت کا احترام سکھاتا ہے

Woman’s Share in Inheritance and Justice in Islamic Laws

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top