اسلامی اصول وراثت کے تحت اگر میت کے بیٹے زندہ ہوں تو یتیم پوتے کو وراثت نہیں ملتی ،اگر کوئی بھی بیٹا زندہ نہیں تو پھر پوتے پوتیوں کو وراثت میں حصہ ملتا ہے ۔اگر غور سے دیکھا جائے تو اللہ تعالی نے اس مقام پر یتیم پوتے کو زیادہ حصہ دیئے جانے اور اس کا دوسرے تمام ورثاء سے زیادہ خیال رکھنے اور اس کے ساتھ تعاون اور ہمدردی کرنے کا موقع فراہم کر دیا ہے
اسلامی قانون وراثت کا اصو ل اور حضور ﷺ کا فرمان ہے : لا وصیتہ لوارث یعنی کسی وارث کے لیئے وصیت جائز نہیں کیونکہ ورثاء کے حصص مقرر کر دیئے گئے ہیں اب کسی وارث کو وراثت کے حصہ کی مزیدوصیت کرتا ہے تو اس میں کا فی خرا بیاں پیدا ہو سکتی ہیں،البتہ غیر وارث افراد کے لیئے ایک تہائی (3/1) تک کی وصیت کی اجازت ہے ۔اب اگر ایک میت کے ورثا ء میں ماں باپ ،بیوی ، پانچ بیٹے ،چار بیٹیاں ایک پوتا ہواور اس کا کل تر کہ تین لا کھ روپے ہواور پوتا بھی وارث ہو تو ظاہر ہے اس کو بیٹےکے برابر ہی حصہ ملتا پھر وراثت کچھ یوں تقسیم ہوتی
وارث | حصہ | تقسیم | رقم | رقم فرد |
بیوی | 24/3 | 24/3×300000 | 37500 | 37500 |
ماں | 24/4 | 24/4×300000 | 50000 | 50000 |
باپ | 24/4 | 24/4×300000 | 50000 | 50000 |
6بیٹے 6بیٹیاں 1 پوتا | 24/13 | 24/13×300000 یہ عصبہ ہیں انہیں ذوی الفروض سے بقایا ترکہ 24/13ملے گا اورہرلڑکےکو لڑکی سے دگنا ملے گا | 162500
| 16250 8125 16250 |
کل رقم 300000
یہ تو ایک عام مثال ہے ماضی میں جب ایک سے زائد شادیوں کا عام رواج تھا جس کی وجہ سے پندرہ بیس سے زائد اولاد ایک حسب معمول تعداد شمار ہوتی تھی اس صورت میں ایک یتیم پوتے کو دیگر چچاورثاء کے مساوی حصہ دیا جانا یک گونہ ظلم شمار ہوتا
ذرا ٹھنڈے دل سے سوچا جائے تو بات بالکل واضح ہوجائے گی یتیم پوتے کی نسبت بیٹا زیادہ خود کفیل ہوتا ہے جبکہ یتیم پوتا زیادہ ضرورتمند ہوتا ہے مگراس مثال میں پوتے کو تین لاکھ میں سے صرف /16250 روپے ملے اسی لیے شریعت نے پوتے کو ذوی الفروض اور عصبہ سے نکال کر اور وراثت میں مقرر حصے سے محروم کرتے ہوئے وصیت کی مد سے دادا کی کل جائداد سے ایک تہائی حصہ لینے کا یتیم پوتے مستحق بنا دیا ۔
یعنی اس مسئلہ مذکورہ میں دادا اپنے اس یتیم پوتے کو ایک لاکھ تک وصیت کرسکتا ہے۔ اور اگر یتیم پوتا بھی وارث ہوتا تو اس کی اس انداز سے اضافی امداد کرنا ناجائز ہوتا جیسا کہ کتب حدیث میں ایک واقعہ بھی موجود ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ألك بنون سواه؟ قال نعم، قال فكلهم أعطيت مثل هذا؟ قال لا قال فلا أشهد على جور
(کیا آپ نے اس بیٹے کی طرح دوسرے بیٹوں کو بھی تحفہ دیا ہے تو صحابی نے فرمایا کہ نہیں تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں اس ظلم کا گواہ نہیں بن سکتا )
گویا کسی ایک وارث اولاد کو دوسروں کی موجود گی مین انہیں محروم کرکے اضافی طور پر مال دینا ناجائز اور ظلم ہے ۔
کیا اس صورت میں یتیم پوتے کازیادہ فائدہ ہے یا ذوی الفروض اور عصبہ میں شامل ہونے پر زیادہ فائدہ ہے ؟ خدا نے یتیم کی امداد کا دادا کو زیادہ بااختیار بنا دیا کیونکہ باپ کے مرنے کے بعد اس یتیم کا اس دنیا میں بظاہر ہمدرد ،خیر خواہ ،نگران اور کفیل سب سے زیادہ دادا ہی ہوسکتا ہے ۔اور اس موجودہ صورت میں میت کے ترکہ کے جتنے بھی وارث ہوں اس یتیم پوتے کی صحت پر کسی قسم کا اثر نہیں پڑے گا دادا اس کے لیئے ایک تہا ئی ما ل کی وصیت کر سکتا ہے ۔ اب اگر دادا ہی اپنے اس یتیم پوتے کو محروم کر دے تو قصور اسلام کا تو نہیں ۔اسی طرح دیگر مسائل بھی ہیں اگر خامی نظر آرہی ہے وہ صرف غلط سمت سے دیکھنے
کی وجہ سے ہے ورنہ دین اسلام عین دین فطرت ہے دورس نگا ہوں میں عقل وحکمت کے عین مطا بق ہے ۔