اشیاء کی کیمیائی تبدیلی کی وجہ سے حلال وحرام ہونے کے بارے میں مختلف ممالک کی فقہی اکیڈمیوں کی آراء کا  تقابلی جائزہ

کسی حرام  یا نجس چیز کی ایسی حالت یا  مرحلہ جہاں اس کی حرمت اور ممانعت ختم ہوجائے  اور اس کا استعمال جائز ہو جائے    اسے استحالہ کاملہ کہا  جاسکتا ہے  ۔اس میں فقہاء کرام کا  کبھی بھی کوئی اختلاف نہیں رہا  کہ اگر  شراب از خود سرکہ بن جائے تو وہ نہ صرف پاک ہے بلکہ حلال اور قابل انتفاع بھی ہے کیونکہ  یہ استحالہ کی وجہ سے پاک اور حلال ہو گئی ہے  جس سے استحالہ  کی ایک متفق علیہ صورت   سامنے آچکی ہے  گویا  فقہاء کرام اور ائمہ عظام سب ہی استحالہ  کو تسلیم کرتے ہیں

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غذائی  مواد کے   زیادہ مقدار  اور آسان تر حصول کی کوشش  میں      ایسے حیوانات  سے بھی  غذائی موادحاصل کیا جانے لگا ہے جو  اسلام میں نجس اور حرام ہیں   اور مغربی ممالک میں  یہ کام  اب باقاعدہ ایک صنعت کا روپ دھار چکاہے جس سے نہ صرف غیر مسلم ممالک بلکہ مسلم ممالک کے  مسلماں بھی پریشانی کا شکار ہوچکے ہیں   بالفرض    ایسے مواد پر مشتمل غذاؤں  سے اگر کسی صورت پرہیز کربھی لیاجائے تو ادویہ میں ان اجزاء کی موجودگی  بدستور   برقرار رہے  گی جس سے اجتناب کافی مشکل اور دقت طلب کام   ہوگا جس کا عوام متحمل نہیں ہوسکتے

بعض صورتوں  میں حیوانی مواد پر مشتمل ان غذائی اور ادویاتی  اجزاء  کو کیمیائی عمل کے ذریعہ  باقاعدہ تبدیل کرلیا جاتا ہے جس سے اس کی نہ صرف شکل و صورت بلکہ نام ،ذائقہ اور  بو بھی تبدیل ہوجاتی ہے  جیسے خنزیر کے مواد سے جیلاٹین یا جیلی  بنائی جاتی ہے  تو کیا یہ تبدیلی استحالہ قرار پائے گی انہیں ۔اس  مضمون میں اسی سلسلہ میں متعدد ممالک کی فقہ اکیڈمیوں اور کونسلوں کی آراء کا تقابلی جائزہ  لیا گیا ہے

فقہ اکیڈمی انڈیا نے  ”احکام شرعیہ میں تبدیلی حقیقت کے اثرات “ کے عنوان پر2001   میں  مستقل طور  تیرہواں اور چودہوان  اجلاس   منعقد کیا   جس میں مختلف ممالک سے  اڑھائی سو سے زیادہ اصحاب فقہ و افتاء   اور میڈیکل سائنس  ،ادویہ اور  فارما کے ماہرین نے شرکت کی  جس میں فیصلہ کیا گیا  کہ  اکیڈمی کے سامنے فنی ماہرین  کے ذریعہ جو تحقیق سامنے آئی ہے  اس کے مطابق جلاٹین میں ان جانوروں کی کھالوں اور ہڈیوں کی حقیقت باقی نہیں رہتی  ہے جن کے کولاجن سے جیلاٹین بنایاجاتا ہے بلکہ وہ ایک نئی حقیقت کے ساتھ نئی چیز ہوجاتی ہے اس لیے اس کے استعمال کی گنجائش ہے

اسلامک آرگنائزیشن برائے طبی علوم نے  اپنے نوویں اجلاس  درج ذیل فیصلہ جاری کیا :حرام یا نجس جانوروں کے اجزاء جن میں بیان شدہ تعبیر کے مطابق استحالہ متحقق ہوچکا ہو غذا اور ادویہ میں  حلال تصور ہوں گے

یورپین کونسل برائے فتوی و تحقیق نے   بھی ا پنے تیئیسویں اجلاس  منعقدہ بوسنیامیں اسلامک آرگنائزیشن برائے طبی علوم کے فیصلے کی  تائید میں استحالہ کے ذریعہ خون  کاغذا اور ادویہ میں  استعمال جائز قرار دیا ہے

ہیئۃ کبار العلماء سعودی حکومت کی جانب سے علماء کا اعلی ترین ادارہ قائم کیا گیا ہے  جس کی معاونت کے لیے  ایک مزید علمی تحقیقی ادارہ  اللجنۃ الدائمہ للبحوث  العلمیہ والافتاء  بھی قائم کیا گیا  جس نے فیصلہ دیا ہے کہ حرام جانوروں  مثلا خنزیر  وغیرہ  کے اجزاء پر مشتمل   مواد مثلا جیلی اور جیلاٹن   وغیرہ کو حرام قراردیا

اسی قسم کا فیصلہ مجلس افتاء والبحوث اردن  اور فقہاء شریعت کونسل  امریکہ نے بھی  دیا ہے جب کہ  مجلس اسلامی للافتاء بیت المقدس      نے واضح طور پر اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ  ان  کی تحقیق کے مطابق جیلاٹین بناتے وقت خنزیر یا دیگر  حرام جانوروں کے اجزاء کا مکمل استحالہ نہیں ہوتا صرف جزوی استحالہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس  کا استعمال حرام ہے

مجمع الفقہ الاسلامی انٹرنیشنل   جدہ   نے اس بات پر تو اتفاق کیا ہے  کہ کیمیائی عمل کے ذریعہ تبدیلی    جیسے تیل یا چربی سے صابن بنانا  استحالہ ہے اور اس بات کی صراحت کی ہے کہ  اگر کیمیائی عمل جزوی ہو تو استحالہ نہیں ہوگا  اور اگر مواد نجس ہو تو  وہ اپنی حالت پر برقرار رہے گا اور اس کا استعمال جائز نہ ہو گا  تاہم استہلاک کے بارے میں بحث کو آئندہ اجلاس کے لیے مؤخر کردیا گیا ہے

اسلامک کونسل مغربی آسٹریلیا   جیلاٹین کے بارے میں نے اپنی  ویب سائٹ پر واضح  طور   گائیڈ لائن دی ہے  کہ  غیر مذبوح جانور اور خنزیر کے اجزاء پر مشتمل  جلاٹین یا کسی  بھی پیداوار کا استعمال حرام ہے

مجامع فقہیہ کی آراء کا تقابلی جائزہ

اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو دنیا بھر کی مجامع  فقہیہ  نے نجس مواد   کی ماہیت اصلیہ کی تبدیلی  کے متحقق ہونے (مکمل استحالہ ) کو ہی  حلت کا   مدار   قراردیا ہے  چنانچہ جن مجامع فقہیہ نے  بہتے خون ،غیر مذبوح  یا حرام اور نجس جانوروں کے    مواد پر مشتمل غذاؤں  یا ادویہ کو جائز قراردیا ہے  ان کی تحقیق کے مطابق اس میں مکمل حقیقی استحالہ  ہوچکا ہے

جن مجامع فقہیہ نے   مذکورہ مواد  پر مشتمل  ماکولات ومشروبات کو حرام کہا ہے ان کے مطابق ان میں حقیقی  اور مکمل استحالہ  ہی نہیں ہوا  یہی وجہ ہے  کہ جہاں  ان کی تحقیق کے مطابق استحالہ حقیقی طور پر پایا گیا اسے جائز قرار دیا گیا۔

اس کی ایک دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ جن دوسری اشیاء میں استحالہ کا وجود مانا گیا ہے  ان کی نجاست عارضی تھی بنیادی طور پر ان کا حقیقی مواد حلال تھا  مثلا شراب کے از خود سرکہ بن جانے پر سب کا اس کی حلت پر اتفاق اس لیے ہے کہ اس کا خام مال انگور  ،کھجور یا دیگر حلال اشیاء ہی ہیں  صرف اس میں نشہ پیدا ہوجانے کی وجہ سے اس کو حرام قرار دیا گیا ہے جوں ہی اس کی یہ عارضی حالت کا خاتمہ ہوا تو حلت کا حکم بھی واپس آجائے گا  بالکل  اسی طرح پیشاب،  نجس پانی اور دیگر نجاستیں جوپہلے ہی ایک بار استحالہ کے بعد ہی   ناپاک  ہوئی ہیں اس لیے  ان کے  دوبارہ استحالہ کے بعد ان کا حکم بدل جائے گا مگر ایسے  جانور جن کو اللہ تعالیٰ نے    ــ  ان  سے  نسل انسانیت کو  لاحق  ہونے والے مضر اثرات  کی وجہ سے  ـــ    حرام قرار دیا ہے کیا ان کا نام، ذائقہ،بو،شکل اور   ہیئت بدل جانے سے ان کے اثرات  بھی بدل جائیں گے؟   اس کے بارے میں قطعیت سے کچھ بھی  نہیں کہا جاسکتا جس کی وجہ سے اس بات کا اندیشہ ہے  کہ جن اثرات سے  انسانوں کو محفوظ رکھنے کی خاطر  اللہ تعالیٰ نے  خنزیر وغیرہ جانوروں کو حرام قرار دیا  انہیں استحالہ کی نئی پیکنگ  کی صورت میں دوبارہ  انسانوں کی ” موسٹ فیورٹ اینڈ موسٹ کامن “ خوراک بنادیا جائے

لیکن دوسری طرف  حرام مواد  خصوصا خنزیر کے اجزاء پر مشتمل مواد نہ صرف غذاؤں میں بکثرت پایا جارہاہے  بلکہ ادویہ سازی میں اس کا انتہائی کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے  جس سے اجتناب کافی مشکل اور دقت طلب ہے  جس کی وجہ سے  یہ بھی عموم بلویٰ کی مد میں کافی حد تک شامل ہوچکا  ہے

نتیجہ

اس لیے مجامع فقہیہ کی آراء کا بغور جائزہ لینے سے    ایک تطبیق کی صورت  سامنے آتی ہے کہ خنزیر  اور دیگر نجس اور حرام جانوروں   کے اجزاء کے  کیمیائی استحالہ کے بعد  ان  پر مشتمل ماکولات و مشروبات کا استعمال مکروہ اور ناپسندیدہ  تو ہوگا مگر قطعی حرام نہ ہوگا  اور ضرورت کی وجہ سے  ان پر مشتمل ادویہ کو استعمال کیا جاسکتا ہے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top