Haj Baitullah me rami karny ke time ki tahqiqi details ! حج کے دوران کنکریاں مارنے کے اوقات کے بارے میں مختلف اقوال اور ان کے دلائل کا جائزہ

حج میں کنکریاں مارنا ارکان حج کا حصہ ہے   اس پر تمام فقہاء کرم کا اتفاق ہے کہ  رمی جمرات کا افضل اور سنت  وقت طلوع افتاب سے زوال تک ہے البتہ غروب آفتاب تک   بھی  درست ہے

لیکن اس کے  علاوہ طلوع آفتاب سے رات  کے کسی حصے میں رمی  کے بارے میں فقہائے کرام کا اختلاف ہے

پہلا مسلک

احناف اور مالکیہ کا مسلک اور امام احمد بن حنبل کی ایک روایت یہ ہے کہ رمی کا  آغاز  قربانی والے دن صبح صادق کے بعد جائز ہے لیکن بہتر نہیں ہے اور سورج غروب ہونے کے بعد کنکریاں مارنا احناف کے نزدیک جائز تو ہے لیکن بہتر نہیں البتہ اس پر کسی قسم کا جرمانہ نہیں اور مالکیہ کے نزدیک غروب افتاب پر وقت ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد صرف اس کی قضا ہوگی اور جرمانہ  (دم دینا )بھی  ہو گا

دوسرا مسلک

 شافعی اور حنبلی مسلک یہ ہے کہ کنکریاں مارنے کا جائز وقت 10 ذی الحجہ کی نصف رات کے بعد شروع ہو جاتا ہے

اور کنکریاں مارنے کا اخری وقت  مالکیہ کے نزدیک غروب افتاب تک ہے اور احناف کے نزدیک اگلے دن کی صبح صادق کے طلوع تک ہے اورشوافع اور حنابلہ کے نزدیک تمام ایام تشریق کنکریاں مارنے کے دن ہیں کسی بھی دن مار سکتا ہے

دلائل کا جائزہ

 چونکہ  قربانی والے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے چاشت کے وقت کنکریاں مارنا ثابت ہے اس لیے طلوع افتاب سے زوال تک کنکریاں مارنا تمام فقہاء کے نزدیک افضل ہے

اس بارے میں مسلم شریف  میں حضرت جابر اور ام الحصین سے دو روایات مروی ہیں

*عن جابر، قال رمي رسولُ الله صلى الله عليه وسلم الجمرة يوم النّحر ضُحًى، وأمّا بعد فإذا زالت الشمس رواه مسلم في الحج (1299: 314) من طريق ابن جريج، أخبرني أبو الزبير أنه سمع جابر بن عبد الله

 **عن أمّ الحصين، قالت: حججتُ مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حجّة الوداع، فرأيتُ أسامة وبلالًا وأحدهما آخذٌ بخطام ناقة النبيّ صلى الله عليه وسلم والآخر رافع ثوبه يستره من الحرِّ حتى رمي جمرة العقبة.

رواه مسلم في الحج (1298: 312) من طريق زيد بن أبي أنيسة، عن يحيى بن الحصين، عن أمّ الحصين جدّته

اس لیے افضل اور سنت عمل میں تو کوئی اختلاف نہیں    لیکن اس کے علاوہ دیگر ا  وقات میں  رمی جمرات  کے بارے  میں فقہاء کرام کا  اختلاف ہے   جب اس سلسلہ میں روایات کا جائزہ لیا جائے  تو  صحیح  روایات سے  اس کا  باقاعدہ ثبوت ملتا ہہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے  قربانی والے دن طلوع افتاب سے پہلے ہی کنکریاں مارنے کی اجازت دی

بخاری اور مسلم میں  حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت ہے   رات کو چاند کے غروب ہونے کے بعد  (یعنی صبح صادق سے پہلے )کنکریاں ماریں  اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دیا

  • پہلی روایت

  عن عبد الله مولي أسماء، قال: قالت لي أسماء -وهي عند دار المزدلفة-: هل غاب القمر؟ قلت: لا، فصلّت ساعة، ثم قالت: يا بُنيَّ! هل غاب القمرُ؟ قلت: نعم. قالت: ارْحل بي. فارْتحلنا حتى رمت الجمرةَ، ثم صلَّتْ في منزلها. فقلتُ لها: أيْ هَنَتاهُ، لقد غلّسنا! قالت: كلا أيْ بُنيّ إنَّ النَّبي صلى الله عليه وسلم أذِن للظُعُن.

رواه البخاريّ في الحج (1679)، ومسلم في الحج (1291) كلاهما من طريق يحبي القطان، عن ابن جريج، قال: حدّثني عبد الله مولى أسماء.

 دوسری روایت

عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے  بخاری اور مسلم شریف میں موجود ہے

  • عن ابن شهاب، أنّ سالم بن عبد الله أخبره: أنّ عبد الله بن عمر كان يقدِّمُ ضَعَفَةَ أهله، فيقفون عند المشعر الحرام بالمزدلفة بالليل فيذكرون الله ما بدا لهم، ثم يدفعون قبل أن يقف الإمام، وقبل أن يدفعَ. فمنهم مَنْ يقدَمُ مِنًى لصلاة الفجر، ومنهم مَنْ يَقْدَمُ بعد ذلك، فإذا قَدِمُوا رَمَوا الجمْرةَ.وكان ابنُ عمر يقول: أرخصَ في أولئك رسول الله صلى الله عليه وسلم.

رواه البخاريّ في الحج (1676)، ومسلم في الحج (1295) كلاهما من طريق يونس (هو ابن يزيد الأيلي)، عن ابن شهاب الزهريّ، به.

 تیسری روایت

نسائی شریف میں عبداللہ ابن عباس سے منقول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اہل خانہ کے ساتھ پہلے  ہی بھیج دیا جہاں انہوں نےطلوع افتاب سے پہلے ہی رمی کر لی

  • عن ابن عباس، قال: أرسلني رسول الله صلى الله عليه وسلم في ضعفة أهله، فصلينا الصّبح بمني ورمينا الجمرة.رواه النسائيّ (3048) عن محمد بن عبد الله بن عبد الحكم، عن أشهب، أنّ داود بن عبد الرحمن حدّثهم، أنّ عمرو بن دينار حدّثه، أنّ عطاء بن أبي رباح حدّثهم أنّه سمع ابن عباس.

اس کے برعکس صرف ایک  روایت عبداللہ ابن عباس سے منقول ہے جو کہ ایک غریب روایت  ہے جس سے استدلال ہی نہیں کیا جاسکتا   اس میں سورج کے طلوع ہونے سے قبل رمی سے منع کیا گیا ہے

عن ابن عباس، أنّ النّبيّ صلى الله عليه وسلم قدم ضعفة أهله قال: “لا ترموا الجمرة حتى تطلع الشمس”.

حسن: رواه الترمذيّ (893) من حديث وكيع، عن المسعوديّ، عن الحكم، عن مقسم، عن ابن عباس

یہ روایت غریب ہونے کے علاوہ  مشکوک  بھی ہے کیونکہ   یہ روایت جتنی بھی سندوں سے ائی ہے وہ تمام مشکوک ہیں ۔ اس کی  ایک سند میں  حکم عن مقسم    دوسری میں  حبیب تیسری میں فضیل بن سلیمان نمیری چوتھی میں حسن عرنی  مشکوک ہیں

پہلی سند کے بارے میں  امام ترمذی فرماتے ہیں کہ حکم نے مقسم سے صرف پانچ روایات نقل کی ہیں اور یہ روایت ان میں شامل ہی نہیں ہے اور دوسری بات یہ ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تاریخ صغیر میں فرماتے ہیں کہ حکم کی روایت   مضطرب ہے۔ التاريخ الصغير (1/ 295).

دوسری  سند سے  یہ روایت  ابو داؤد شریف اور  نسائی  (1941)، والنسائيّ (3065)  میں بھی موجود ہے لیکن اس میں حبیب راوی مدلس ہیں اور مدلس جب عنعن  روایت کرے تو وہ قابل استناد نہیں ہوتی اسی طرح اس سند میں ایک عطا نامی راوی بھی ہیں جن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ سند محفوظ نہیں

تیسری  سند    سنن بیہقی  میں موجود ہے (رواه البيهقيّ (5/ 132) عن محمد بن أبي بكر عنه.) لیکن اس میں فضیل بن سلیمان نمیری ہیں جو  موسی بن عقبہ سے روایت کر رہے ہیں یہ ایک ضعیف راوی ہیں جن کے بارے میں کچھ ائمہ کرام نے منکر بتایا اور امام ابن معین نے اسے غیر ثقہ قرار دیا ہے

چوتھی سند  ابو داؤد شریف، نسائی شریف اور ابن ماجہ(أبو داود (1940)، والنسائي (3064)، وابن ماجه (3025))  میں ہے جس میں   حسن عرنی حضرت عبداللہ بن عباس سے نقل کرتے ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ حسن عرنی کی حضرت عبداللہ ابن عباس شیخ ملاقات ہی ثابت نہیں

ایک اور روایت ہے جو امام احمد بن حنبل (مسند أحمد (2459))نے نقل کی ہے مگر امام ابن حزیمہ (صحيح ابن حزيمه  (4/ 280)) نے اس کو مشکوک قرار دیا ہے


(1) الهداية 2 / 185، والبدائع 2 / 137، وشرح اللباب ص 157 – 158، والشرح الكبير 2 / 48، وشرح الرسالة بحاشية العدوي 1 / 477 و480، والمغني 3 / 429 والفروع 3 / 513.
(2) الإيضاح ص 354، والنهاية 2 / 429، والمغني والفروع ونهاية المحتاج عن الرافعي 2 / 430، وقوله ” إلى الزوال ” أي من بعد طلوع الشمس.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top