اسلام صرف ایک علاقے اور ایک رسم و رواج کے حامل معاشرے کا دین نہیں بلکہ یہ قیامت تک پوری دنیا کے ہر معاشرے کے لیے راہنما ہے اسی لیےقرآن و سنت نے راہ نما اصول توبیان کر دیئےمگر جزئیات بیان نہیں کیں تاکہ ہر علاقے اور زمانے کے بدلتے حالات کی مناسبت سے ان اصول کے تحت پیش آمدہ مسائل کا استنباط کیا جائے ،حالات کے تغیر کی وجہ سے سے مختلف لوگوں کے استنباط میں اختلاف بھی واقع ہوسکتا ہے اس لیے حضور ﷺ نے اس اختلاف کو جائز ،درست بلکہ قابل اجرو ثواب قرار دیا ، اور خود آپ علیہ السلام نے بارہا اجتہادی فیصلے فرمائے، جس کی اجازت اﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ([1]) کہ کر عطا کی گئی تھی، كىونکہ مشاورت من طریقِ وحی نہیں تھی بلکہ من طریقِ اجتہاد تھی۔ ([2])چنانچہ آپﷺ نے غزوہ تبوک میں عذر پیش کرنے والوں کو اپنے اجتہاد کی بنا پر شرکت نہ کرنے کی اجازت دی جس پر آیت عَفَا اللَّهُ عَنْكَ لِمَ أَذِنْتَ لَهُمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ([3])، ، بدر کے قیدیوں کو فدیہ دے کر رہا کرنے کا اجتہادی فیصلہ فرمایا، جس پر آیت مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ([4]) نازل ہوئی([5])۔ صحابہ کرام کو آپﷺ نے اجتہاد کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
(1)۔ إذا حكم الحاكم فاجتهد، فأصاب، فله أجران، وإذا حكم فاجتهد، فأخطأ، فله أجر۔
جب حاکم (قاضی) نے اجتہاد کر کے کوئی فیصلہ کیا اگر اس نے درست فیصلہ کیا تو اسے دو اجر ملیں گے اور اگر اس سے خطاء ہوگئی تو اسے ایک اجر (تو ضرور) ملے گا ) ([6])
اس روایت میں آپ ﷺ نے ایک عام اصول بیان کردیا گیا اور آپ ﷺ صحابہ کرام کی اسی نہج پر تربیت کرتے رہے جیسا کہ مشہور واقعہ ہے ابو سعید خدری کی فرماتے ہیں :
(2)۔ خرج رجلان في سفر فحضرت الصلاة وليس معهما ماء فتيمما صعيدا طيبا فصليا ثم وجدا الماء في الوقت فأعاد أحدهما الصلاة والوضوء ولم يعد الآخر ثم أتيا رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرا ذلك له فقال للذي لم يعدأصبت السنة وأجزأتك صلاتك وقال للذي توضأ وعادلك الاجر مرتين۔
ایک بار دو صحابی سفر پر تھے جب نماز کا وقت ہوا تو ان کے پا س پانی نہ تھا اس پر ان دونوں نے تیمم کرکے نماز پڑھ لی نماز سے فراغت کے بعد انہیں پانی بھی مل گیا جس پر ایک صحابی نے تو وضو کرکے نماز دہرالی مگر دوسرے صحابی نے نہ دہرائی ،سفر سے واپسی پر دونوں آپ ﷺ کیخدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا وقعہ بیان کیا تو آپ ﷺ نے نماز نہ دہرانے والے کو فرمایا تو نے سنت پر عمل کیا ہے تیری نماز درست ہوگئی جبکہ نماز دہرانے والے صحابی سے فرمایا کہ تمہیں دگنا اجر ملا۔ ([7])
حضور ﷺ نے دونوں کو درست قرار دے دے کر پوری امت کو سبق دے دیا کہ اطاعت خداوندی کی خاطر کوئی آدمی اپنی مقدور بھر کوشش کرے اور پهر اس سے اجتہادی غلطی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ ضائع نہیں ہوتی بلکہ اس پر اسے اجرو ثواب ملے گا ۔
(3)۔ یہ اجتہادی اختلافات حکمتِ شرعیہ پر مبنی ہوتے ہیں اور حکمتیں متعدد ہونے کی وجہ سے ایک سے زائد صائب آراء بھی ہو سکتی ہیں اور
راجح حکمت کی تعیین میں خود انبیاء علیہم السلام میں اختلاف ہو سکتا ہے اور یہ اختلاف خلافِ شرع نہیں ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
﴿ وَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ اذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ اذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شاھدین فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ وَكُلًّا اتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ﴾
(اور یاد کرو جب داؤد اور سلیمان علیہما السلام ایک کھیتی کے بارے میں فیصلہ کر رہے تھے جس میں رات کے وقت ایک قوم کی بکریاں چرگئیں اور ہم ان کے فیصلے کے وقت موجود تھے پس ہم سلیمان علیہ السلام کو فہم عطا کی اور ہر ایک کو ہم نے حکمت اور علم دیا) ۔([8])
اس موقع پر قرآن کریم نےان دونوں انبیاء کرام کے علم و فہم کی تعریف فرمائی جس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اجتہادی اختلاف قابل مؤاخذہ نہیں اللہ تعالی نے کسی بھی فیصلے کو غلط نہیں قرار دیا ۔ حالانکہ اس موقع پر دونوں انبیاء کرام کے فیصلے بالکل مختلف تھے کیونکہ یہ اجتہادی اختلاف تھا ۔
(4)۔ اجتہادی اختلاف کادور نبوت میں سب سے اہم واقعہ غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر پیش آنے والا ایک قصہ ہے جب حضور ﷺ نےاسلامی لشکر سے مخاطب ہوتے ہوئے اعلان فرمایا تھا کہ تمام لوگ عصر کی نماز بنو قریظہ میں جاکر پڑھیں: حضرت عبد اللہ بن عمر اس قصہ کوبیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
فادرك بعضهم العصر في الطريق فقال بعضهم لا نصلي حتى ناتيهاوقال بعضهم بل نصلي لم يرد منا ذلك، فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم فلم يعنف واحدا منهم
(جب بعض صحابہ کرام کو راستے میں نماز عصر کا وقت ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ ہم تو بنو قریظہ پہنچ کر ہی نماز پڑہیں گے اور کچھ دیگر صحابہ کرام نے کہا کہ ہم تو یہیں نماز پڑہیں گے حضورﷺ کے فرمان کا یہ مقصد نہیں تھا ( کہ ہم نماز ہی قضا کردیں ) جب اس کا تذکرہ حضور ﷺ سے کیا گیا تو آپ ﷺ نے کسی بھی صحابی کے عمل پر اعتراض اور انکار نہیں کیا ) ([9])
اس حدیث میں ’’ فلم يعنف ‘‘ کے الفاظ انتہائی قابل غور ہیں کہ جب کچھ صحابہ کرام حضور ﷺ کی اس واضح ہدایت کے باوجود نماز راستے میں ہی پڑھ لیتے ہیں تو آپ ﷺ نے ان سے یہ تک نہیں پوچھا کہ آپ نے میری ہدایت اور حکم پر عمل کیوں نہیں کیا یا اتنا ہی فرمادیتے کہ اچھا آج جو ہوا سو ہوا ، آئندہ ایسا نہ کرنااور نہ ہی دوسرے فریق سے یہ پوچھا کہ نماز عصر کا وقت تو غروب افتاب سے پہلے ہے آپ لوگوں نے نماز ہی کیوں قضاء کردی جو اس بات کی کی طرف واضح اشارہ ہے کہ علمی اور تحقیقی اختلاف قابل گرفت و قابل اعتراض ہر گز نہیں ہے ۔
(5 ) اسی پر بس نہیں بلکہ آپ ﷺ تو علمی اختلاف پر اعتراض کی نہ صرف حوصلہ شکنی فرماتے بلکہ اس پر تنبیہ بھی فرمایاکرتے تھے جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود اپنا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں :
سمعت رجلا قرا اية، سمعت من النبي صلى الله عليه وسلم خلافها فاخذت بيده، فاتيت به رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال كلاكما محسن قال شعبة اظنه قال لا تختلفوا، فان من كان قبلكم اختلفوا فهلكوا۔
(میں نے ایک آدمی کو قرآن کریم کی ایک آیت حضور ﷺ کے لہجے اور طرز سے ہٹ کر پڑھتے سن کر پکڑ کر آپ ﷺ کی خدمت پیش کردیا تو حضور ﷺ نے( ہم دونوں کی بات سن کر ) فرمایا کہ تم دونوں درست پڑھ رہے ہو ! حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے اس موقع پر یہ بھی فرمایا تھا کہ تم لوگ آپس میں اس طرح (علمی ) اختلاف نہ کیا کرو تم سے پہلے لوگ بھی اسی طرح کے اختلاف کرنے پر ہلاک و تباہ ہوئے ([10])
دور خلافت راشدہ میں اجتہادی اختلافات
خلافت راشدہ کے دور میں متعدد مواقع پر جید فقہاء صحابہ میں بھی باہمی اجتہادی اختلاف ہوتا رہا مگر آپ ﷺ کے ان تربیت یافتہ ہستیوں نے اسی اسلامی رویے کو اپنائے رکھا۔
اس سلسلے میں متعدد واقعات تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں مثلا حضرت عبد اللہ بن مسعود کا حضرت عثمان سے منی میں نماز قصر کے متعلق اختلاف ہوگیاتھا حضرت ابن مسعود کے نزدیک دوران حج منی میں نماز قصر ادا کی جائے گی جب کہ حضرت عثمان اپنی خلافت کے اخری دور میں چار رکعات پڑھنے لگے تھے اس کے باوجود حضرت ابن مسعود ؓ جب بھی حضرت عثمانؓ کے ساتھ نماز پڑھتے تو دو ہی رکعات پڑھتے تھے لوگوں نے ان کی اس حرکت پر اعتراض بھی کیا جیسا ابوداؤد کی روایت میں ہے :
قال الاعمش فحدثني معاوية بن قرة، عن اشياخه ان عبد الله صلى اربعا قال: فقيل له عبت على عثمان ثم صليت اربعا؟! قال الخلاف شر.
امام اعمش فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے منیٰ میں مکمل نماز پڑہی تو لوگوں نے ان پر اعتراض کردیا ( کہ آپ کے نزدیک منٰی میں دو رکعات(نماز قصر ) پڑھنی ج ضروری ہے اور آپ خود چار رکعات پڑھ رہے ہیں ) تو حضرت عبد اللہ ابن مسعود نے فرمایا کہ اختلاف اور جھگڑا پیدا کرنا برا کام ہے۔([11])
اندازہ لگائیے کہ حضرت عبداللہ ؓبن مسعود جو کہ فقہاء صحابہ میں شمار ہوتے ہیں اپنے نکتہ نظر اور خیال کے برعکس حضرت عثمان کی اتباع میں قصر کے بجائے مکمل نماز اداکرتے رہے حالانکہ ان کے پاس مضبوط دلائل تھے ۔
اس واقعہ میں ہمارے لیے بہت اہم سبق ہے اور ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ جیسی شخصیت عمدا ایک غلط کام اور وہ بھی حج کے عظیم اجتماع میں سارے حاجیوں کے سامنے علانیہ کریں گے ؟ قطعا نہیں بلکہ یہ حضرات تو ایک ایک سنت نبوی کی اتباع پر کٹ مرنے والے لوگ تھے پھر آخر انہوں نے ایسا کیوں کیا ؟ اس کی وجہ صرف یہی تھی کہ انہوں نے اسے حضرت عثمان کا اجتہاد سمجھتے ہوئے اپنے نکتہ نظر کے مضبوط دلائل کے باوجود اس لیے قابل اتباع سمجھا کہ پوری امت کو یہ بتادیا جائے کہ ہر صاحب علم و فہم وبصیرت کو ایسے موقع پر جہاں امت میں انتشار ،فتنہ اور فساد کا اندیشہ اور خطرہ ہو اپنے نکتہ نظر کے باوجود رواداری، دانشمندی،اتفاق اور اتحاد کے عملی مظاہرے کے لیے اجتہادی مسائل میں کسی دوسرے مجتہد کے قول پر عمل کرنا زیادہ ثواب ہے کیونکہ اس سے فتنے وفساد کا دروازہ بند ہوسکتا ہے اوریہ اتنا عظیم کام ہے اس کے لیے حضور ﷺ نے بیت اللہ کو بناء ابراہیم پر از سر نوتعمیر کرنے کی اپنی خواہش کو قربان کردیا اور حضرت عائشہ سے فرمایا :
لولا ان قومك حديث عهدهم بالجاهلية، فاخاف ان تنكر قلوبهم ان ادخل الجدر في البيت وان الصق بابه بالارض
اگر تیری قوم (قریش) ابھی حال ہی میں جاہلیت (کفر) سے نہ نکلی ہوتی کہ اور ان کے دلوں میں غلط خیا لات پیدا ہوجانے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں حطیم کو خانہ کعبہ میں داخل کردیتا اور اس کا دروازہ زمیں سے ملا دیتا۔ ([12])
اجتہادی اور غیر منصوص احکام و مسائل کے بارے میں یہی اسلام کی تعلیم اور اصول بیان کیا گیا ہے،تمام صحابہ کرام ، امت کے اکابر ائمہ کرام اور فقہاء عظام اپنے باہمی فقہی اختلافات کے باوجود پوری زندگی اسی پر کاربند رہے اور اسی کا پوری زندگی درس دیتے رہے۔ ذیل میں ان تمام حضرات کے کردار،طرز عمل اور اقوال وتعلیمات کو پیش کیا جارہا ہے تاکہ ہم ان کی روشنی میں اپنے کردار،عمل،اور رویوں کا جائزہ لے کر اسلامی طرز عمل اپنا ئیں اور ایک پرامن ،روادار اور مستحکم معاشرے کو تشکیل دے سکیں ۔
اجتہادی اختلافات کی حیثیت بارے میں حضرت عمر کی رائے ملاحظہ فرمائیں ایک بارحضرت عمر ایک آدمی سے ملے اور اس سے پوچھا کہ تم نے فلان کام کا کیا کیا ؟ تو وہ کہنے لگا کہ حضرت علیؓ اور حضرت زید بن ثابت نے اس طرح فیصلہ کیا ہے تو حضرت عمر فرمانے لگے :
لو كنت انا لقضيت بكذا قال: فما منعك والامر اليك؟ قال: لو كنت اردك الى كتاب الله اوالى وسنة نبيه صلى الله عليه وسلم لفعلت ولكني اردك الى راي والراي مشترك فلم ينقض ما قال علي وزيد۔
اگر میں ہوتا تو یہ فیصلہ دوسری طرح کرتا تو وہ آدمی کہنے لگا کہ آپ کو کس نے روکا ہے (اپ ابھی بھی اپنا فیصلہ دے سکتے ہیں)اپ تو بااختیار ہیں تو حضرت عمرؓ فرمانے لگے کہ اگر بات قرآن و سنت کی ہوتی تو میں یہ ضرور کرتا لیکن یہ (مسئلہ پر ایک اجتہادی )رائے ہے اور اس میں دوسرے بھی شریک ہیں (یعنی ان کے اجتہاد رائے کا بھی ایک مقام ہے ) اور پھر حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ اور زیدؓ کا فیصلہ تبدیل نہیں کیا۔([13])
دور صحابہ کا ایک اور واقعہ ملاحظہ کیجیے حضرت عبد الله بن عباسؓ اور حضرت زيدؓ بن ثابت كا وراثت كے ايك مسئلہ میں باہمی اختلاف تهااوراس پر انہیں چیلنج بھی کیا فرمایا :
الا يتقي الله زيد يجعل ابن الابن ابنا ، ولا يجعل ابا الاب ابا
کیا زیدؓ بن ثابت کو اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں وہ پوتے کو تو بیٹے کی طرح قرار دیتے ہیں مگر دادا کو باپ کی طرح نہیں سمجھتے۔ ([14])
مگر چونکہ یہ ایک فقہی اور اجتہادی اختلاف تھاان کےباہمی احترام میں کسی بھی قسم کا اخر دم تک فرق نہ آیا چنانچہ علامہ ابن عساکر لکھتے ہیں :
ان زيد بن ثابت ركب يوما فاخذ ابن عباس بركابه فقال تنح يا ابن عم رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فقال هكذا امرنا اننفعل بعلمائنا وكبرائنا فقال زيد ارني يدك فاخرج يده فقبلها فقال هكذا امرنا ان نفعل باهل بيت نبينا۔
ایک دفعہ حضرت زید اپنی سواری پر سوار ہونے لگے توحضرت عبداللہ بن عباسؓ نے حضرت زیدؓ بن ثابت کی سواری کی لگام پکڑ لی تو حضرت زیدؓ بولے اے رسول اللہ ﷺ کے چچازاد بھائی لگام چھوڑدیں تو حضرت ابن عباسؓ بولے کہ حضور ﷺ نے ہمیں علماء کےاحترام کاحکم دیا ہے حضرت زید ؓبن ثابت بولے ذرا اپنا ہاتھ قریب کریں جوں ہی حضرت ابن عباس نے اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑہایا تو حضرت زید نے فورا اسے پکڑ کر چوم لیا اور فرمایا کہ حضور ﷺ نے ہمیں اہل بیت کے احترام کا بھی اسی طرح حکم دیا ہے۔ ([15])
ایک طرف علمی اختلاف اور دوسری طرف اس قدرباہمی عقیدت و احترام اس بات کی دلیل ہے کہ حقیقی علم میں اضافہ علماء و فقہاء کے باہمی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے احترام و عقیدت میں کمی کے بجائے اضافہ ہی کرتا ہےاور اگر علمی اختلاف پر دلوں میں کدورت پیدا ہو تو یہ اس بات کی دلیل ہوسکتی ہے کہ وہ علمی نور سے محروم اور علم حقیقی سے کوسوں دور ہے اسے علم کے بجائے جہل اور حجاب کہنا زیادہ مناسب ہوگا غالبا اسی کے بارے میں کہا گیا : العلم الحجاب الاکبر([16]) علم بھی ایک بڑا حجاب ہے۔
کیا یہ عجیب بات نہیں کہ اللہ تعالیٰ کائنات کے بدترین انسان جس نے خدائی کا دعوی کرلیا تھا سے بات كرنے كے ليے اس دور کے سب سے افضل ترین انسان کو فرمایا قولاله قولا لينا مگر اج ہم صرف فقہی اجتہادی اختلاف پروہ فتنہ برپا کرتے ہیں جس بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : والفتنة اشد من القتل (فتنہ تو قتل سے زیادہ سخت ہے )۔
ہم دوسرے پر الزام لگاتے وقت یہ سوچتے ہی نہیں کہ کہیں خودہم ہی تو مجرم نہیں بن رہے ؟حضور ﷺ کا یہ فرمان تو بھول ہی گئے ہیں ؟
من دعا رجلا بالكفر او قال عدو الله، وليس كذلك، الا حارعليه۔
جو شخص کسی کے کفر کا دعوی کرے یا اسے اللہ کا دشمن کہہ دے اور ووہ اس طرح نہ ہو تو یہ بات واپس اسی پر لوٹے گی۔([17])
ہم فقہی اور اجتہادی اختلافات کو اس درجے تک پہنچانے سے قبل سوچتے نہیں کہ :
کیا أم المؤمنین حضرت عائشہؓ اور ابن عباس میں رؤیت خداوندی کے بارے میں اختلاف نہیں تھا( [18])؟
کیا أم المؤمنین حضرت عائشہؓ اور صحابہ کرام میں سماع موتی کے بارے میں اختلاف نہیں تھا ( [19])؟
حضرت عبداللہؓ بن مسعود اور ابو موسی اشعری میں مدت رضاع کے بارے میں اختلاف نہیں تھا([20]؟
حضرت ابو ہریرہ ؓ([21])اور حضرت عبداللہ بن عباس ([22])میں آگ سے پکی ہوئی چیز سے وضو ٹوٹنے کے بارے میں اختلاف نہیں تھا؟
ذرا صحابہؓ کا اپناعمل ملاحظہ کیجئے: ابوداؤد کی روایت ہے میمون مکی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہؓ بن زبیرؓ کو رفع یدین کرتے دیکھا تو میں عبداللہ بن عباس ؓکے پاس چلاگیا اور ان سے کہا :
اني رايت ابن الزبير صلى صلاة لم ار احدا يصليها فوصفت له هذه الاشارة، فقال: ان احببت ان تنظر الى صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فاقتد بصلاة عبد الله بن الزبير۔
میں نے حضرت ابن زبیؓر کو اس طرح نماز پڑہتے دیکھا جس طرح کوئی دوسرا نہیں پڑہتا تو اور پھر میں انہیں بات بتائی تو وہ کہنے لگے اگر تم حضور ﷺ کی نماز دیکھنا چاہتے ہو تو عبد اللہ بن زبیر کی نماز کی اقتداء کرو ([23])
صحابہ کرام کا متفقہ فیصلہ بھی ملاحظہ فرمائیے علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں :
وقد اتفق الصحابة في مسائل تنازعوا فيه على اقرار كل فريق للفريق الاخر على العمل باجتهادهم كمسائل في العبادات والمناكح والمواريث والعطاء والسياسة وغير ذلك۔
صحابہ کرام کا اس بات پر اتفاق ہوگیا ہے کہ اجتہادی متنازع مسائل میں ہر (مجتہد)فریق کو اپنے اجتہاد پر عمل کرنا جائز ہے جیسے مسائل عبادات، نکاح ،وراثت، عطیات اور سیاسی امور وغیرہ ([24])
تابعین کرام اور ائمہ عظام میں اجتہادی اختلافات
ایک بار کسی نے امام احمد سے پوچھ لیا کہ اگر امام کا دوران جماعت خون نکل آئے اور وہ وضو نہ کرے تو کیا اس کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے تو اما م احمد نے فورا جواب دیا : كيف لا اصلي خلف الامام مالك وسعيد بن المسيب۔
(میں کیونکر امام مالکؒ اور حضرت سعید بن مسیب کے پیچھے نماز نہین پڑہوں گا ) ([25]) یہ دونوں حضرات اس بات کے قائل تھے کہ جسم سے خون نکلنے سے سے وضو نہیں ٹوٹتا، جبکہ خود امام احمد کا موقف تھا کہ وضو ٹوٹ جاتا ہے[26]۔چونکہ یہ ان کا یہ اجتہادی اور علمی اختلاف ہےاس لئے اس کو بتانا چاہتے ہیں کہ ان کے پیچھےاس آدمی کی نماز بغیر کسی شک و شبہ کے بالکل درست ہے جس کے نزدیک سیلانِ دم سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
یہ واقعہ انتہائی قابل غور ہےاور ہمارے لئے سوچنے کا مقامہے کہ کیا ہم خود کو ان حضرات آئمہ کرام سے بھی زیادہ متقی ،نیک اور باعمل دیندار قرار دیتے ہیں جو صرف افضل اور غیر افضل کے اختلاف پر بھی مخالف کو گمراہ قرار دیتے ہیں ؟
علامہ قرطبی لکھتے ہیں : كان ابو حنيفة واصحابه والشافعي وغيرهم يصلون خلف ائمة اهل المدينة من المالكية وان كانوا لا يقراون البسملة لا سرا ولا جهرا، وصلى ابو يوسف خلف الرشيد وقد احتجم وافتاه مالك بانه لا يتوضا فصلى خلفه ابو يوسف ولم يعد
امام ابو حنیفہ ان کے تمام ساتھی اور امام شافعی مدینہ منورہ کے مالکی ائمہ کرام کے پیچھے اپنی نماز یں ادا کیا کرتے تھے حالانکہ وہ حضرات
(نماز میں ) بسم اللہ بالکل ہی نہیں پڑہتے تھے نہ آہستہ اور نہ بلند آواز سے ، ایک بار خلیفہ ہارون الرشید نےسینگی (لگا کر خون
نکالنے)کےبعد نماز پڑہائی اور ان کے پیچھے امام ابو یوسف نے بھی نماز پڑہی اور انہوں نے یہ نماز لوٹائی بھی نہیں کیونکہ خلیفہ کو امام مالک نے فتوی دیا تھا کہ سینگی لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ۔
یہاں افضل اور غیر افضل راجح اور غیر راجح کا اختلاف نہیں بلکہ درست اور غلط کا معاملہ ہے جائز اور باطل کا مسئلہ ہے اور شخصیت بھی کوئی عام فقیہ اور عالم نہیں بلکہ امام ابو یوسفؒ جیسی ہستی ہیں جنہیں امام ابوحنیفہ کے ساتھ زیادہ عرصہ تک رہنے اور ان کی فقہ کو ترویج دینے کا اعزاز حاصل ہے ۔مگر چونکہ سینگی سے وضو ٹوٹنے اور نہ ٹوٹنے کا مسئلہ فقہی اجتہاد پر مبنی ہے جس کے بارے میں حرف آخر یہی ہے کہ اس میں درست ہونے کی صرف امید اور غلطی کا امکان بہر حال موجود رہتا ہےجس کی وجہ سے کسی دوسرے فقیہ اور امام کے اجتہاد کو غلط نہیں کہا جاسکتا اسی وجہ سے امام ابو یوسفؒ نے بلا ججھک خلیفہؓ کے پیچھے نماز پڑھ لی، کیا آج ہم سے اس رویے کی توقع کی جاسکتی ہے اگر نہیں تو سوچنے کی بات ہے کیوں نہیں ؟ کیا ہمارا یہ رویہ اسلامی کہلایا جاسکتا ہے ؟ آئیے ذرا دیکھیں کہ خود یہ جلیل القدر آئمہ اور مذاہب فقہیہ کے بانی دوسرے ائمہ کے فقہی اختلافات کو کس نظر سے دیکھتے تھے ذرا ملاحظہ فرمائیے :
محی الدین عبد القادر بن محمد اپنی کتاب جواہر المضیئہ فی طبقات الحنفیہ میں لکھتے ہیں :
ولقد رايت فى بعض التواريخ عن الامام الشافعي رحمه الله انه زار الامام ابا حنيفة ببغداد قال فادركتني صلاة الصبح وانا عند ضريحه فصليت الصبح ولم اجهر بالبسملة ولاقنت حياء من ابي حنيفة۔
میں نے بعض تاریخ کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ امام شافعی فرماتے ہیں کہ جب میں بغداد گیا توایک دن امام ابو حنیفہؒ کی قبر کے قریب صبح کی نماز کا وقت ہوگیا تو میں نے صبح کی نماز میں امام ابو حنیفہؒ سے حیاء کی وجہ سے نہ تو بسم اللہ بلند آواز سے پڑھی اور نہ ہی دعاء قنوت پڑہی۔ ([27])
حالانکہ امام شافعی ؒرحمہ اللہ کے نزدیک صبح کی نماز میں دعاء قنوت واجب ہے اور اپنی کتاب الام میں لکھتے ہیں :
وان ترك القنوت في الفجر سجد للسهو؛ لانه من عمل الصلاة وقد تركه۔
اگر کوئی صبح کی نماز میں دعاء قنوت ترک کردے تو اس پر سجدہ سہو لازمی ہو جائے گا کیونکہ اس نے تو نماز کا ایک عمل ہی ترک کردیا ہے ([28])
اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان عظیم القدر آئمہ کرام میں فقہی اور اجتہادی اختلافات کی کیا حیثیت تھی ایک جانب امام شافعی صبح کی نماز میں بھول کر دعاء قنوت چھوڑ دینے پر نماز کو نامکمل قرار دے کر اس کی تلافی کے لیے سجدہ سہو لازمی قرار دے رہے ہیں مگر دوسری جانب خود عمدًا دعاء قنوت ہی ترک کر رہے ہیں گویا یہ حضرات یہ بتانا چاہتے ہیں کہ فقہاء کرام اور آئمہ عظام کی اقوال اور اراء کی وہ قطعاً حیثیت نہیں جو قرآن و سنت کے منصوص احکام کی ہے پھرآخر ہم نے کس روش کو اختیار کرلیا ہے اسے سوچنے کی ضرورت ہے کیا یہ لوگ غلط تھے یا آج ہم غلط ہیں ؟ خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزؒیز کا فرمان ملاحظہ فرمائیں علامہ ابن عبد البرؒ لکھتے ہیں :
اجتمع عمر بن عبد العزيز، والقاسم بن محمد رضي الله عنهما فجعلا يتذاكران الحديث، قال: فجعل عمر يجيء
بالشيء يخالف فيه القاسم قال: وجعل ذلك يشق على القاسم حتى تبين فيه فقال له عمر: «لا تفعل فما يسرني ان لي
باختلافهم حمر النعم»
ایک بار حضرت عمر بن عبد العزیز ؒاور حضرت قاسم بن محمد ؒ بیٹھے علمی بحث کرنے لگے حضرت عمرؒ جب کوئی ایسی بات کرتے جو حضرت قاسم کی رائے سے مختلف ہوتی توانہیں کچھ شاق گزرنے لگی حضرت عمر بن عبد العزیز نے اس کو محسوس کر لیا اور فرمانے لگے ایسا مت کرو مجھے تو اس علمی اختلاف کے بدلے (انتہائی قیمتی ) سرخ گھوڑے بھی پسند نہیں ہیں۔ ([29])
اگرعلمی اور تحقیقی اور اجتہادی اختلافات کو ذاتی اختلاف سمجھ کرمخالفانہ اور مخاصمانہ رویہ روا رکھا جائے پھر تو کوئی بھی محفوظ رہ سکے گا جو شخصیت جتنی علمی اور تحقیقی کام کرے گی وہی سب سے زیادہ قابل نفرین قرار پائے گی امام احمدبن حنبل بیان فرماتے ہیں :
ولو انا كلما اخطا امام في اجتهاده في احاد المسائل خطا مغفورا له قمنا عليه وبدعناه، وهجرناه لما سلم معنا لا ابن نصر([30]) ولا ابن مندة([31]) ولا من هو اكبر منهما،
اگر ہم ہر امام کی معاف شدہ اجتہادی غلطی (جس پر باقاعدہ ایک نیکی بھی ملتی ہے ) پر مؤاخذہ ،مخاصمت اور ترک تعلق کرنا شروع کردیں پھر تو ہم محفوظ رہیں گے اور نہ امام ابن نصر نہ امام ابن مندہ اور نہ ہی ان سے بھی بڑی کوئی شخصیت محفوظ رہے گی ([32])
آج ہماری سوچ انتہائی محدود ہو کر رہ گئی ہے ہم فقہی اجتہادی اختلاف پر مخالف سے معاندانہ رویہ روا رکھتے ہیں بلکہ حدود ہی عبو کر لیتے ہیں جب کہ ہمارے اکابر ائمہ کرام اس کے لیے دعاء مغفرت فرمایا کرتے تھے چناچہ امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی کتاب میں قتادہ بن دعامہ بن قتادہ بن عزیزسدوسی کے بارے میں لکھتے ہیں :
وكان يرى القدر -نسال الله العفو ومع هذا فما توقف احد في صدقه وعدالته، وحفظه ولعل الله يعذرامثاله ممن
تلبس ببدعة يريد بهاتعظيم الباري وتنزيهه وبذل وسعه والله حكم عدل لطيف بعباده ولا يسال عما يفعل ثم ان
الكبير من ائمة العلم اذا كثر صوابه وعلم تحريه للحق، واتسع علمه وظهر ذكاؤه وعرف صلاحه وورعه واتباعه
يغفر له الله ولا نضلله ونطرحه وننسى محاسنه نعم ولا نقتدي به في بدعته وخطئه ونرجو له التوبة من ذلك
یہ (قتادہ سدوسی )فرقہ قدریہ کے خیالات رکھتے تھے ہم اللہ تعالیٰ سے معافی کی درخواست کرتے ہیں اس کے باوجود(کہ ان کا قدریہ کی جانب میلان تھا ) کسی نے بھی ان کی صداقت ، عدالت اور ان کی یاداشت پر سوال نہیں اٹھایا شاید اللہ تعالی ان جیسے لوگوں کو جو خدا تعالیٰ کی تعظیم و تنزیہ کی خاطر اس قسم کی کے نظریات اختیار کرتے ہوں کومعذور قرار دے(کر معاف ہی کر دے )اس عظیم ذات سے تو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں اور پھر سب سے اہم بات یہ کہ جس صاحب علم کے درست نظریات زیادہ ہوں اور وسعت علمی ، ذہانت ،صلاحیت و لیاقت ،تقوی و اتباع شریعت کے ساتھ حق بات کی جستجو و تحقیق میں مصروف ہو اللہ تعالیٰ اس کی لغزشوں کو معاف فرمادیں گے ہم اسے گمراہ کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی اس سے بے رخی برتیں گے البتہ اس کی ان لغزشوں کی اتباع نہیں کریں گے اللہ تعالیٰ سے اس کی توبہ و معافی کی امید ہی رکھیں گے ([33])
اپنے نکتہ نظر کو درست قرار دینا اور اس پر ڈٹ جانا تو ایک قسم دعوی معصومیت ہے جس کا دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہوگا کہ باقی سب غلط ہیں حالانکہ فوق كل ذي علم عليم اللہ تعالیٰ کسی کو ایک بات سمجھا دیتا ہے تو دوسرے پر کسی کو دوسری چیز کا انکشاف کردیتے ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ ہم جتنا قیامت کے قریب آتے جارہے ہیں خود کو اتنا ہی کامل سمجھتے جارہے ہیں ذرا سے علمی اور اجتہادی اختلاف کو کفر اور اسلام کا مسئلہ بنا کر پیش کر دیتے ہیں یہ اختلاف خیرالقرون میں بھی تھے مگر ان کے مباحثوں کا انداز ہمارے انداز سے قطعا مختلف اور یکسر جدا تھاان اکابر کا طرز عمل ذرا ملاحظہ فرمائیں :امام ذہبی لکھتے ہیں :
قال يونس الصدفي ما رايت اعقل من الشافعی ناظرته يوما في مسالة، ثم افترقنا، ولقيني، فاخذ بيدي، ثم قال يا ابا موسى الا يستقيم ان نكون اخوانا وان لم نتفق في مسالة۔
یونس صدفی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں امام شافعی سے زیادہ عقل مند کسی کو نہیں دیکھا ایک دن میرا ان سے ایک مسئلہ پر مناظرہ اور مباحثہ ہوگیا جب ہم فارغ ہوئے تو امام شافعی فرمانے لگے اے ابو موسی کیا ہم اچھے دوست نہین بن سکتے اگرچہ ہمار ا آپس میں علمی اختلاف بھی ہے۔ ([34])
ذرا غور کیجئے کہ علامہ صدفی کس چیز کو عقل مندی اور کسے بے عقلی قرار دے رہے ہیں اور پھر اس کی روشنی میں اپنے معاشرہ کا جائزہ لیں یہی دینی اور اسلامی طرز عمل امام احمد بن حنبل کا تھا، چنانچہ عباس بن عبد العظیم عنبری فرماتے ہیں :
كنت عند احمد بن حنبل وجاءه علي بن المديني راكبا على دابة، قال فتناظرا في الشهادة وارتفعت اصواتهما حتى خفت ان يقع بينهما جفاء وكان احمد يرى الشهادة وعلي يابى ويدفع فلما اراد علي الانصراف قام احمد فاخذ بركابه
میں ایک بار امام احمدؒ بن حنبل کے پاس بیٹھا تھا کہ امام علی بن مدینی گھوڑے پر سوار ہو کرتشریف لے ائے اور پھر ان دونوں میں مسئلہ شہادت پر اس قدر سخت بحث و مباحثہ شروع ہوا کہ کہ مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ کہیں یہ دونوں آپس میں لڑ ہی نہ پڑیں بحث کے اختتام پر جب علیؒ بن مدینی جانے لگے تو امام احمدؒ بن حنبل فورا ًاٹھے اور (بطور احترام ) ان کے گھوڑے کی لگام تھام لی۔ ([35])
مباحثہ اور اختلاف رائے کا مزید انداز ملاحظہ کریں ابن ابی عوام لکھتے ہیں کہ عبد العزیز دراوردی اور ابن ابی سلمہ کا بیان ہے کہ :
رايت ابا حنيفة ومالك بن انس في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد صلاة العشاء الاخرة وهما يتذاكران
ويتدارسان، حتى اذا وقف احدهما على القول الذي قال به امسك الاخر عن غير تعنيف ولا تمعير ولا تخطئة، حتى
يصليا الغداة في مجلسهما ذلك۔
ہم نے امام ابو حنیفہ اور امام مالک کو مسجد بنوی میں نماز عشاء کے بعد بحث و مباحثہ کرتے دیکھا جب ان میں سے کوئی اپنی رائے پر قائم ہوجاتا تو دوسرا بغیر کسی درشتی ،نکیر اور الزام خطاء کے خاموش ہوجاتا ان کی یہ مجلس برابر صبح کی نماز تک جاری رہتی ([36])
ان حضرات کے غالبا ان جیسے ہی کارناموں کی بدولت اللہ تعالی ٰ نے ان سے عظیم کام لیے اور رہتی دنیا تک ان کے نام روشن کردیے ۔امام سعید بن یحی فرماتے ہیں :
ما برح المستفتون يستفتون فيحل هذا ويحرم هذا فلا يرى المحرم ان المحلل هلك لتحليله ولا يرىالمحلل ان المحرم هلك لتحريمه۔
ہمیشہ سے سائل لوگ علماء و فقہاء سے مسائل پوچھتے رہے کوئی ایک کسی چیز کو حرام قرارد یتا تو دوسرا حلال کہہ دیتا مگر کبھی بھی حرام قرار دینے والے نے کسی حلال بتانے والے کو اس پر مورد الزام نہیں ٹھہرایا اور نہ ہی حلال قرار دینے والے نے کسی حرام قرار دینے والےکو موجب عتاب سمجھا ہے ([37])
اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ اجتہادی مسائل میں کسی بھی فقیہ کا قول زیادہ سے زیادہ اقراب الی الصواب قرار دیا جاسکتا ہے اس کے یقینی طور پر صحیح ہونے کا دعوی قطعا نہیں کیا جاسکتا ۔
علامہ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں :
وقد كان رجال من افاضل الامة -علما وعملا- من الكوفيين يعتقدون ان لا خمر الا من العنب, وان ما سوىالعنب والتمر لا يحرم من نبيذه الا مقدار ما يسكر, ويشربون ما يعتقدون حله.فلا يجوز ان يقال:ان هؤلاء مندرجون تحت الوعيد
کوفہ کے بہت سے علماء و فضلاء کے نزدیک صرف انگور سے بننے والی شراب حرام ہے اور انگور و کجھور کی نبیذ اس صورت میں حرام ہے جب اس سے نشہ ہو اور یہ لوگ جسے حلال قرار دیتے ہیں اسے پیتے بھی ہیں چنانچہ ان لوگوں کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ بھی اس وعید میں شامل ہیں جائز نہیں ([38])
مشہور امام و فقیہ حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں :
اذا رايت الرجل يعمل العمل الذي قد اختلف فيه وانت ترى غيره فلا تنهه۔
جب آپ کسی کو ایسا کام کرتے دیکھیں جس میں( اجتہادی) اختلاف ہو تو اسے منع نہ کریں ([39])
مشہور فقیہ قاسم بن محمد سے جب قراءۃ خلف الامام کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں کیا خوب فرمایا :
ان قرات فلك في رجال من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم اسوة وان لم تقرا فلك في رجال من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم اسوة۔
اگر آپ فاتحہ خلف الامام پڑہیں تو اس میں بھی صحابہ کا نمونہ موجود ہے اور اگر نہ پڑہیں تو اس میں بھی صحابہ کا نمونہ موجود ہے ([40])
ابن تیمیہ لکھتے ہیں :
مسائل الاجتهاد من عمل فيها بقول بعض العلماء لم ينكر عليه ولم يهجر ومن عمل باحد القولين لم ينكر عليه
اگر کوئی آدمی اجتہادی مسائل میں کسی فقیہ کے قول پر عمل کرے تو اس پر اعتراض نہ کیا جائے نہ ہی اس سے روگردانی کی جائے اور جو شخص کسی فقیہ کے کے دو اقوال میں سے ایک کو اختیار کرےاس پر بھی اعتراض نہ کیا جائے ([41])
علامہ ابن خزیمہؒ کا کافی مسائل میں جمہور علماء و فقہاء سے اختلاف تھا یہ حدیث صورت ([42]) کی بھی تاویل کرتے تھے علامہ ذہبی ان کے بارے میں لکھتے ہیں :
فليعذر من تاول بعض الصفات، واما السلف، فما خاضوا في التاويل، بل امنوا وكفوا، وفوضوا علم ذلك الى الله
ورسوله، ولو ان كل من اخطا في اجتهاده – مع صحة ايمانه، وتوخيه لاتباع الحق – اهدرناه، وبدعناه، لقل من يسلم
من الائمة معنا۔
جن لوگوں نے اللہ تعالی کی بعض صفات کی تاویل کی ہے انہیں معذور سمجھا جائےجب کہ سلف حضرات نے اس بارے میں غور وخوض چھوڑ کر ایمان بالغیب کو ترجیح دیتے ہوئے اس کی حقیقت کا معاملہ اللہ تعالیٰ تک چھوڑ دیا ہے اگر ہر ایک صاحب ایمان و عمل کو اس کی خطاء اجتہادی پر قابل نفرین قرار دیں تو کوئی بھی امام محفوظ نہیں رہے گا ([43])
مشہور فقیہ قاسم بن محمد بن ابو بکر فرماتے ہیں :
لقد نفع الله تعالى باختلاف اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم في اعمالهم
اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے صحابہ کے (اجتہادی) اختلاف سے لوگوں کے اعمال میں بڑی سہولت پیدا فرمادی ہے ([44])
امام احمدؒ تو کسی بھی فقیہ کو اپنے مسلک کی طرف دعوت دینے سے منع فرمایا کرتے تھے چنانچہ علامہ ابن مفلح مقدسی نے امام احمد کا یہ قول بھی نقل کیا ہے :
لا ينبغي للفقيه ان يحمل الناس على مذهبه
کسی بھی فقیہ کو جائز نہیں کہ لوگوں کو اپنے (فقہی) مذہب کی طرف ترغیب دے۔ ([45])
مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم دین کے بجائے فقہی مسلک کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں اور غیر مسلک کے افراد سے وہ سلوک کرتے ہیں جو غیر مسلم سے بھی نہیں رکھتے۔
27 امام دار قطنیؒ اور علامہ ابو بکر باقلانیؒ میں فقہی مذہبی اختلاف تھا مگر اس اختلاف کے باوجود ان کا رویہ کیا تھا؟ امام ذہبیؒ، دار قطنیؒ کے شاگرد شیخ ابو ذر ابن سماک کا قول نقل کرتے ہیں :
اني كنت ماشيا ببغداد مع الحافظ الدارقطني، فلقينا ابا بكر بن الطيب فالتزمه الشيخ ابو الحسن، وقبل وجهه
وعينيه، فلما فارقناه، قلت له: من هذا الذي صنعت به ما لم اعتقد انك تصنعه وانت امام وقتك ؟ فقال هذا امام
المسلمين والذاب عن الدين، هذا القاضي ابو بكر محمد بن الطيب۔
میں امام دارقطنیؒ کے ساتھ بغداد میں چل رہا تھا کہ ہماری ملاقات علامہ ابو بکر باقلانی ؒسے ہوگئی انہیں دیکھتے ہی امام دارقطنی ؒنے گلے لگایا ان کے چہرے اور پیشانی پر بوسہ دیا جب وہ چلے گئے تو میں نے امام دار قطنیؒ سے پوچھا یہ کون ہین جن کے ساتھ آپ نے ایسا عظیم سلوک کیا ہے میرا خیال نہیں تھاکہ آپ جیسی شخصیت کسی سے اس طرح پیش ائے آپ تو اس دور کے امام ہیں تو وہ فرمانے لگے یہ تومسلمانوں کے امام اور دین کے دفاع کرنے والے ہیں ان کا نام قاضی ابو بکر باقلانی ؒہے ([46])
اور جب یہی ابو بکر باقلانیؒ فوت ہوتے ہیں تو ان کے ایک دوسرے مسلکی مخالف شیخ الحنابلہ ابو الفضل تمیمیؒ کا رد عمل ملاحظہ
فرمائیے:علامہ ذہبی لکھتے ہیں :
امر شيخ الحنابلة ابو الفضل التميمي مناديا يقول بين يدي جنازته:هذا ناصر السنة والدين، والذاب عن الشريعة، هذا الذي صنف سبعين الف ورقة.ثم كان يزور قبره كل جمعة۔
شیخ الحنابلہ ابو الفضل تمیمیؒ نے ایک منادی کے ذریعے قاضی ابو باقلانی ؒکے جنازے پر اعلان کروایا کہ یہ شخصیت دین و سنت کی خادم اور شریعت کا دفاع کرنے والی تھی یہ وہ ہستی ہیں جنہوں نے ستر ہزار اوراق لکھے ہیں اور پھر شیخ الحنابلہ ابو الفضل تمیمی ان کی قبر پر ہر جمعہ کو تشریف لے جاتے تھے ([47])
ایک اور واقعہ ملاحظہ کیجیے علامہ مناویؒ، امام زرکشیؒ سے نقل کرتے ہیں :
ان القاضي ابا الطيب اقيمت صلاة الجمعة فهم بالتكبير فذرق عليه طير فقال انا حنبلي
ایک دن قاضی ابو طیب جمعہ کی نماز پڑھا نے کے لیے تکبیر کہنے ہی لگے تھے کہ ایک پرندے ان پر بیٹ کردی تو فورا کہنے لگے کہ میں (اس مسئلہ میں ) حنبلی ہوں۔ ([48])
اگر مخصوص فقہی نظر سے دیکھا جائے تو یہی نظر آئے گا ان کی نماز ادا ہوئی اور نہ ہی پورے اجتماع کی ادا ہوئی ان کے بارے میں کیا کہا جاسکے گا اگر ان کا یہ عمل درست ہے تو پھر دور حاضر میں ہم اتنے متشدد اور متعصب کیوں ہوچکے ہیں ؟
فقہی اختلاف کی حقیقت اور مسلک اعتدال کا مزید نمونہ ملاحظہ فرمائیں صاحب علامہ شامی امام ابو یوسف کے بارے میں لکھتے ہیں:
روي عن ابي يوسف انه صلى الجمعة مغتسلا من الحمام ثم اخبر بفارة ميتة في بئر الحمام فقال ناخذ بقول اخواننا من
اهل المدينة «اذا بلغ الماء قلتين لم يحمل خبثا۔
ایک بار امام ابویوسف نے حمام سے غسل کر کے نماز جمعہ پڑہائی بعد میں پتہ چلا کہ( اس حمام کے) کنویں میں چوہا مرا ہوا تھا تو امام ابو یوسفؒ فرمانے لگے اج ہم اپنے مدنی بھائیوں (مالکیہ )کے قول پر عمل کریں گے کہ جب پانی دو مٹکے ہوجائے تو وہ ناپاک نہیں ہوتا ([49])
آخر ان حقائق کے باوجود کب تک ہم محض فروعی اختلافات کو اصولی اختلافات قرار دیتے رہیں گے؟ اسی سلسلے میں یہ واقعہ بھی تاریخ کا حصہ ہے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں :
وروي ان ابا يوسف ومحمدا كانا يكبران في العيدين تكبير ابن عباس لان هارون الرشيد كان يحب تكبيرجده.
امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ دونوں عیدین میں روایت ابن عباس کے مطابق تکبیرات کہتے تھے کیونکہ خلیفہ منصور عباسی کو اپنے جد امجد حضرت ابن عباس کی ورایت پر عمل کرنا محبوب تھا([50])
امام شافعی کااجتہادی مسائل کے بارے میں کیا نظریہ ہے ملا فروخ ؒان ہی کا قول نقل کرتے ہیں :
حِين ابتلينا انحططنا الَى مَذْهَب اهل الْعرَاق ۔
جب کہیں ہم مشکل میں گرفتار ہوجائیں تو اہل عراق کے مذہب پر عمل کرلیتے ہیں ([51])
امام ذہبیؒ، امام شافعیؒ کے ایک شاگرد – محمد بن عبد الله بن عبد الحكم ابو عبد الله المصری کے بارے میں لکھتے ہیں :
له تصانيف كثيرة منها كتاب في الرد على الشافعی وكتاب احكام القران وكتاب الرد على فقهاء العراق وغير ذلك۔
ان کی متعدد تصانیف ہیں مثلا ایک کتاب کام نام ہے کتاب الرد علی الشافعی ایک کا نام ہے کتاب الرد علی فقہاء العراق ہے۔
اور پھر اس پرامام ذہبیؒ تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: وما زال العلماء قديما وحديثا يرد بعضهم على بعض في البحث۔
ہمیشہ سے علماء ایک دوسرے کا بحث اور تصنیف میں رد کرتے آئے ہیں ([52])
دور حاضر کے مشہور محقق شیخ محمد عوامہؒ لکھتے ہیں:
و من شواہد ادبہم فی الاختلاف انك لاتجد کتابا من کتب الفقہ لامذهبی الا وفیہ النص علی جواز التقلید للمذاهب الاخری دون قصد تتبع الرخص وکذا فی کتب الاصول فی ابواب الاخیرۃ منہا و ینصون علی جواز الانتقال من مذهب الی مذهب۔
ان (فقہاء کرام اور ائمہ عظام ) کے علمی اختلافات کے باوجود باہمی ادب و احترام کی شہادت یہ بھی ہے کہ آپ کو(مذاہب اربعہ میں سے ) ہر فقہی مذہب کی کتاب میں اس بات کی تصریح ملی گی کہ رخصتوں کی تلاش کے بغیرکسی بھی دوسرے مذہب کی تقلید جائز ہے اور اسی طرح اصول کی کتابوں کے اخری ابواب میں اس بات کی بھی تصریح موجود ہے کہ ایک مذہب سے دوسرے مذہب میں جانا جائز ہے ([53])
ڈاکٹر طہ جابر فیاض علوانی لکھتے ہیں:
وقد تنقلب الاراء الاجتهادية والمدارس الفقهية التي محلها اهل النظر والاجتهاد، على ايدي المقلدين والاتباع الى ضرب من التحزب الفكري، والتعصب السياسي، والتخريب الاجتماعي تؤول على ضوئه ايات القران واحاديث الرسول صلى الله عليه وسلم فتصبح كل اية او حديث لاتوافق هذا اللون من التحزب الفكري اما مؤولة او منسوخة، وقد يشتد التعصب ويشتد فتعود الينا مقولة الجاهلية كذاب ربيعة افضل من صادق مضر۔ ([54])
آج یہ اجتہادی اقوال اور یہ فقہی مذاہب اپنے ماننے والوں کے ہاتھوں فرقہ وارانہ گروہ بندی اجتماعی فساد وتخریب کا ہتھیار بن چکے ہیں ان کی خاطر قرآن و حدیث کی بھی توجیہ ہونے لگی ہے اب جو آیت یا حدیث کسی مذہب کے خیالات کے مطابق نہ ہو اسے موؤل یا منسوخ قرار دیا جاتا ہے بعض دفعہ ان لوگوں کا شدت تعصب سے دور جاہلیت کا مقولہ سامنے آجاتا ہے کہ ہمیں اپنے قبیلے ربیعہ کا جھوٹا نبی مضر قبیلے کے سچے نبی سےزیادہ پسند ہے ۔
ہمارے اس مرض اور غلط روش کی دور حاضر میں ایک اہم وجہ اور سبب کے بارے میں علا مہ صالح بن محمد فلانی مالکی لکھتے ہیں:
ومن جملة اسباب تسليط الفرنج على بعض بلاد المغرب والتتر على بلاد المشرق كثرة التعصب والتفرق والفتن بينهم
في المذاهب۔
بعض مغربی ممالک پر فرنگیوں اورمشرقی ممالک پر تاتاریوں کے تسلط کی وجہ سے مختلف مذاہب میں تعصب فرقہ پرستی اور فتنوں کو فروغ ملا۔ ([55])
یعنی غیر مسلم طاقتیں(DIVIDE AND RULE) لڑاؤ اور حکومت کروکے اصول کے تحت امت مسلمہ میں باہمی تقسیم پیدا کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں اور ہم غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے منصوبوں کے تحت ان ہی کے تیارکردہ میدانوں میں اپنی ساری توانائیاں صرف کیئے جارہے ہیں، جب مسلمان قوم باہمی دست و گریبان ہوگی تو اس سے باہر کے دشمن کی ضرورت نہیں رہے گی ،اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں پیشگی باخبر کردیا تھا اور فرمایا : واطيعوا الله ورسوله ولا تنازعوا فتفشلوا وتذهب ريحكم۔
اللہ و رسول کی اطاعت کرو اور تنازعات مین مت پڑنا ورنہ کمزور ہوجاؤگے اور تمہاری ہوا ہی اکھڑ جائے گی ۔
اس وقت اگر چہ ہم اپنے خیال میں دین کی خدمت کر رہے ہیں مگر حقیقت میں ہمارا یہ کردارنہ صرف اسلام کی اشاعت میں رکاوٹ بن رہا ہے بلکہ از خود اسلام کی طرف راغب ہونے والوں کو بھی متنفر کر رہا ہے ہمارے اس فقہی اور مذہبی تعصب کا نتیجہ ملاحظہ فرمائیے : ڈاکٹر طلعت محمد عفیفی جاپانی عالم دین محمد معصومی کتاب هدیۃ السلطان الی مسلمی يابان کے حوالے سے لکھتے ہیں ۔
انه كان ورد علي سوال من مسلمي يابان من بلدة طوكيو ماحاصله ماحقيقة دين الاسلام ثم مامعني المذهب ۔۔۔لانه قد وقع في هذا اختلاف عظيم ونزاع وخيم حينما اراد عدة افراد من رجال يابان ان يدخلوا في الاسلام ويتشرفوا بشرف الايمان فعرضوا ذلك على جمعية المسلمين الكائنة في طوكيو فقال جمعٌ من اهل الهند ينبغي ان يختاروا مذهب الامام ابي حنيفة لانه سراج الامة وقال جمعٌ من اهل اندونيسيا يلزم ان يكون شافعيًّا فلما سمع اليابانيون كلامهم تعجبوا وتحيَّروا فيما قصدوا، وصارت مسالة المذاهب سدًّا في سبيل اسلامهم ([56])
میرے پاس جاپانی شہر ٹوکیو سے مسلمانوں کا خط آیا جس کا خلاصہ یہ ہےکہ دین اسلام کیا مذہب کا کیا معنی ہے کیونکہ یہاں اس بارے میں کافی اختلاف پیدا ہوگیا ہے کچھ جاپانی لوگوں نے اسلام قبول کرنے کا پروگرام بنایا اور وہ مقامی مسلمانوں کے پاس چلےگئے تو وہاں پر موجود انڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے انہیں حنفی مسلک میں داخل ہونے کا مشورہ دیا ان کے بقول امام ابوحنیفہؒ پوری امت کے چراغ ہیں، جبکہ انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں نے انہیں شافعی مسلک قبول کرنے پر اصرار کیا جس پر یہ جاپانی لوگ حیران ہوگئے اور تعجب کرنے لگے اور پھر انہوں نے اسلام قبول نہ ہی کرنے کا فیصلہ کرلیا اور چلے گئے ۔
یہ واقعہ چاروں فقہی مذاہب کے پیروکاورں کے لئے تازیانہ عبرت ہے وہ دین اسلام جو اپنے ماننے والوں کے جنازوں سے غیر مسلموں کو قبول اسلام پر مجبور کردیا کرتھا تھا آج ان کی دین کی طرف دعوت بھی غیر مسلموں کے راستے میں رکاوٹ بنتی جارہی ہے کیا یہ عبرت کا مقام نہیں ہے ؟ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہم اپنے اسلاف کے راستے سے ہٹتے چلے جارہے ہیں کئی درجن اسلامی مملک اور ڈیڑھ ارب سے زیادہ آبادی اور دنیا کے وسائل کے وسیع ذخیرے کے باوجود آج ہم انتشار و افتراق کا انتشار ہیں اس کا حل دور حاضر کے مشہور محقق شیخ محمد عوامہ کے الفاظ میں ایک ہی ہے وہ لکھتے ہیں :
وسبيل خلاصنا من هذا الواقع موجز بكلمة واحدة يستوعب شرحها مجلدات هي العوده بنا الي ماكان عليه سلفنا الصالح في العلم والعمل[57])
اس صورتحال سے نکلنے کے لیے ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے جسے ایک جملے میں بیان کیا جاسکتا ہے اور اس کی تشریح کئی جلدوں میں کی جاسکتی ہے کہ ہم اپنے اسلاف کے نقش قدم پر واپس آجائیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام کی روح کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
حوالہ جات مقالہ
[1]۔ آل عمران: 159
[2] ۔ الآمدي ، أبو الحسن سيد الدين علي بن أبي علي بن محمد بن سالم الثعلبي الإحكام في أصول الأحكام، المكتب الإسلامي، بيروت- دمشق- ، ج4، ص166۔
[3] ۔ التوبه :43
[4] ۔ الانفال: 67
[5] ۔ النسفي، أبو البركات عبد الله بن أحمد بن محمود حافظ الدين , مدارك التنزيل وحقائق التأويل، دار الكلم الطيب، بيروت، – 1998 ج1، ص 657
[6]۔ بخاری ،محمد بن اسماعيل ابو عبدالله ،صحيح البخاری دار طوق النجاۃ طبع اول,حدیث نمبر 7352
[7] ۔ حاكم ،محمد بن عبد الله بن محمد بن حمدويه ،مستدرک حاکم ، دار الحرمين ج 1 ص 286 حدیث نمبر632، سنن ابو داؤد ج 1 ص 254
[8] ۔ الأنبياء: 78- 79
[9] ۔ صحيح البخاری ,حدیث نمبر 946
[10] ۔ صحيح البخاری ج حدیث نمبر 2410
[11] ۔ ابوداؤد،سلیمان بن اشعث،سنن ابو داؤد،دارالقبلہ ،بیروت ج 2 ص 508
[12] ۔ بخاری ج 2 ص 146 حدیث نمبر 1584
[13] ۔ ابن قیم، محمد بن ابی بكر بن ايوب بن سعد شمس الدين(1968م)، اعلام الموقعين عن رب العالمين، مكتبہ الكليات الازہریہ، مصر، القاہرہ،طبع نامعلوم ج 1 ص 65
[14] ۔ ابن قدامہ، ابو محمد موفق الدين عبد الله بن احمد(1997م)، المغنی، عالم الكتب، الرياض ،طبع دوم ج 9 ص 68
[15] ۔ابن عساكر أبو القاسم علي بن الحسن بن هبة الله ، تاریخ دمشق ، دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع ج 19 ص325
[16] ۔ رشید احمد گنگوہی(2003)، مفتی،فتاوی رشیدیہ ،دارالاشاعت کراچی (طبع نامعلوم) ص 78
[17] ۔ مسلم ج 1 ص 79 حدیث نمبر 61
[18] ۔ الزركشي ، أبو عبد الله بدر الدين محمد بن عبد الله بن بهادر الشافعي الاجابۃ لما استدرکت عائشۃ علی الصحابۃ ، مکتبۃ الخانجی، القاھرہ، 2001 م۔، ج1، ص 83
[19] ۔ ایضا، ج1، ص 99
[20] ۔ ابن عبدالبر، ابو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد(1994 م)، جامع بيان العلم وفضلہ، دار ابن الجوزی ،سعودی عرب،طبع اول ، ج2، ص 913 رقم الحدیث 1716
[21] ۔ سنن أبي داود، ج1، ص 139
[22]۔ ا بن حنبل ،أحمد بن محمد ،المسند ، مؤسسة الرسالة ج4، ص271، رقم الحدیث 2462
[23] ۔ ابوداؤد ج 1 ص 489 علامہ البانی نے اس روایت کو صحیح کہا ہے ۔
[24] ۔ ابن تيمية ، أحمد بن عبد الحليم ،مجموع الفتاوي، دار الوفاء ج 19ص 122
[25] ۔ ایضا ج20 ص 364
[26] ۔ الموسوعة الفقهية الكويتية، ج26، ص 346
[27] ۔ عبد القادر بن محمد بن نصر الله القرشي الجواهر المضية في طبقات الحنفية مير محمد كتب خانه – كراچی ج 2 ص 433
[28] ۔ شافعی ابو عبد الله محمد بن ادريس(1990م) الام دار المعرفہ، بيروت(طبع نامعلوم) ج 1 ص 156
[29] ۔ جامع بيان العلم وفضله ج 2 ص 901
[30] ۔ الإمام، شيخ الاسلام، ابو عبد الله الحافظ محمد بن نصر بن الحجاج المروزی ابو عبد الله بغداد میں سن 202 ھ میں پیدا ہوئے اور نیشاپور میں
زندگی گزاری۔ خطیب بغدادی نے انہیں صحابہ کے بعد سب سے بڑا احکام شریعہ کا عالم قرار دیا ہے اور فرمایا :كان من أعلم الناس
باختلاف الصحابة ومن بعدهم في الأحكام۔اور امام حاکم فرماتے ہیں : هو الفقيه العابد العالم إمام أهل الحديث فى عصره
بلا مدافعة ( یہ فقیہ عابد عالم اپنے دور کے محدثین کے امام تھے ۔دیکھئے طبقات الشافعیہ سبکی ج 2 ص 247
[31] ۔ الحافظ ابو عبد اللہ محمد بن یحی بن مندہ نیشاپوری۔ دیکھیے: سیر اعلام النبلاء ج 14 ص 188
[32] ۔ ذہبی، شمس الدين محمد بن احمد بن عثمان(1985 م)،سير اعلام النبلاء، مؤسسۃ الرسالہ،طبع دومج 14 ص 40
[33] ۔ ایضا ج 5 ص 271
[34] ۔ ایضا ج 10 ص 16
[35] ۔ محمد بن أحمد بن يحيى بن الحارث السعدي (2010 )فضائل أبي حنيفة وأخباره ومناقبه ، مكتبة الإمدادية – مكة المكرمة ص 130
[36] ۔ جامع بيان العلم وفضله ج 2 ص 968
[37] ۔ ایضا ج 2 ص 902
[38] ۔ مجموع الفتاوی لابن تیمیہ ج 20 ص 264
[39] ۔ الفقيه والمتفقه ج 1 ص 418
[40] ۔ التمهيد لابن عبدالبر ج 11 ص 54
[41] ۔ مجموع الفتاوی ج 20 ص 207
[42] ۔ بخاری ومسلم کی حدیث جس میں آدم علیہ السلام کی تخلیق کا اللہ تعالیٰ کی صورت پر بنائے جانے کا ذکر ہے حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
خلق الله آدم على صورته، طوله ستون ذراعا، فلما خلقه، قال: اذهب، فسلم على أولئك نفر من الملائكة جلوس
فاستمع ما يحيونك، فإنها تحيتك وتحية ذريتك، فقال السلام عليكم: فقالوا السلام عليك ورحمة الله. بخاری ج 8
ص 50 حدیث نمبر6227
[43] ۔ سیر اعلام النبلاء ج 14 ص 374
[44] ۔ جامع بيان العلم وفضله ج 2 ص 900
[45] ۔ الآداب الشرعية ج 1 ص 189
[46] ۔ سیر اعلام ج 17 ص 558
[47] ۔ ایضا ج 17 ص193
[48] ۔ فتح القدیر شرح جامع الصغیر ج 1 ص 209
[49] ۔ رد المحتار على الدر المختار ج 1 ص 75
[50] ۔ حجة الله البالغة (ملخصا) 1/455
[51] ۔ القول السديد في بعض مسائل الاجتهاد والتقليد لابن مُلّا فَرُّوخ ج 1 ص 110
[52] ۔ سير أعلام النبلاء ج 12 ص 500
[53] ۔ طہ جابر فياض العلوانی (سن طبع ندارد) ادب الاختلاف فی الاسلام ،وزارت شئون دینیہ قطر ص 75
[54] ۔ ایضا ص 12
[55] ۔ فلانی،صالح بن محمد بن نوح بن عبد الله العَمْري المعروف إيقاظ همم أولي الأبصار للاقتداء بسيد المهاجرين والأنصار دار المعرفة – بيروت ج 1 ص 54
[56] ۔ طہ جابر فياض العلوانی ،ادب اختلافات الفقہیہ ص 66
[57] ۔ ایضا ص 142