صحیح غریب احادیث سے استدلال کا تحقیقی جائزہ

کون سی صحیح حدیث  ایمانیات اور عقائد  اور  حلال و حرام کے احکامات میں دلیل نہیں بن سکتی؟

 احادیث کی کئی قسمیں ہیں اس لیے ان کے احکام بھی مختلف ہیں

حدیث متواتر :۔ایسی روایات جس کو  کافی تعداد میں صحابہ نے نقل کیا ہو اور  ان سے اسی طرح مسلسل کافی لوگ لوگ نقل کرتے جائیں  ایسی روایات   بلا شک  و شبہ   آیت قرانی کی طرح  قابل استدلال ہیں  ان سے حلال و حرام اور ایمانیات اور عقائد  سمیت جملہ احکام و امور ثابت ہوں گے

باقی روایات   کو خبر واحد کہا جاتا ہے  جن کی تین اقسام ہیں

غریب خبر واحد: وہ روایت جو صرف ایک صحابی سے منقول ہو اور ایک لاکھ صحابہ میں سے کسی ایک نے بھی اس کی تصدیق نہ کی ہو۔

عزیز خبر واحد: وہ روایت جس کی سند کے آغاز میں دو راوی ہوں، بعد میں چاہے جتنے بھی زیادہ ہو جائیں۔

مشہور خبر واحد: وہ روایت جس کے آغاز میں کم از کم تین راوی ہوں، اور ہر دور میں تین راوی موجود رہیں۔

خبرواحد سے استدلال کے قواعد

مشہور خبر واحد  روایات سے استدلال بغیر کسی شک و شبہ کے جائز ہے اور اس سے احکامِ شریعہ اور عقائد و ایمانیات میں دلائل فراہم کیے جا سکتے ہیں۔

عزیز خبر واحد روایات    سے احکامات میں قابلِ استدلال ہیں   اور  ان روایات سے سنت ، مستحب امور ، مکروہات اور ناپسندیدہ امور ثابت  ہونگے ۔ البتہ عقائد اور ایمانیات میں ان سے استدلال ظنی ہوگا۔

غریب خبر واحد  رویات سے استدلال کرنا تعلیماتِ قرآن کی رو سے  منع ہے ۔ کیونکہ قرآن  کریم نے ثبوت دعوی کے لیے  دو گواہوں کی  شہادت کا ذکر کیا ہے  جسے نصابِ شہادت کہا جاتا ہے۔ عام امور میں دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی  کافی ہے۔ جبکہ زنا کے ثبوت کے لیے چار گواہوں کی ضرورت ہے۔

                                                             

قرآنی نصابِ شہادت

اگر زنا کے ثبوت کے لیے نصابِ شہادت پورا نہ ہو، تو تین افراد کی گواہی پر حدِ قذف لگائی جائے گی اور  گواہی دینے والے  ہمیشہ کے لیے گواہی کے حق سے محروم ہو جائیں گے۔ البتہ  عام معاملات میں دعوی کے ثبوت کے لیے  بھی دو گواہوں کی موجودگی ضروری ہے، اور ایک فرد کی گواہی قابلِ قبول نہیں ہوتی  اور دعوی  ثابت نہیں ہوگا

دینی معاملات اور شرعی مسائل کی حیثیت ان دنیاوی امور سے کمتر نہیں ہو سکتی۔  اس لیے اگر کوئی روایت صرف ایک صحابی  سے نقل ہو  اور تقریبا سوا  لاکھ صحابہ میں سے کسی   بھی دوسرے صحابی سے  اس  کے ثبوت میں کوئی شہادت نہ ملے تو  اس روایت سے استدلال کرنا درست نہیں۔

اگر صرف ایک ہی راوی والی روایات  سے استدلال شروع کردیا جائے   تو  کافی مضحکہ خیز   قسم کی روایات بھی دکھائی دیتی ہیں جن کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں بنتا  ،بلکہ بے کافی ساری   روایات قرانی احکامات اور  اصول اسلام سے یکسر   متعارض  ہیں۔

    اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے  کہ  ابتدائی   دور میں کافروں کی  ایک کافی  بڑی تعداد  منافقین  کی شکل میں  مسلمانوں  کی صفوں میں  بطور دشمن  موجود رہی  اور انہوں نے  اپنے  مشن اور زندگی کے نصب العین  کے  طور پر حتی الامکان  مسلمانوں   کو   اسلام سے دور کرنے کی  آخر دم تک بھرپور کوششین  جاری رکھیں   اور اسی سلسلہ میں نبی اکرم ﷺ  کی جانب من گھڑت باتیں منسوب کرنا  ان کے لیے کوئی معیوب کام نہیں تھا

زمانہ نبوت میں  کی شاید صحابہ کو اتنی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ کسی بھی غلطی پر  فورا بذریعہ وحی  اس کی اصلاح کردی جاتی تھی  اس لیے  انہیں  تحقیق کی  چندان ضرورت ہی نہ تھی

مزید برآن صحابہ  کرام بھی اسی معاشرے میں اپنے حواس خمسہ –بلکہ ان کی چھٹی حس  ہماری والی سے زیادہ حساس تھی -سمیت موجود تھے   ان کے لیے   اپنی بصارت اور بصیرت  سے واقعات اور حالات   سے     مخلص مسلمانوں  کی پہچان آسان تھی ان کو بہت سی باتوں کا ادراک ہوسکتا تھا جن سے بعد کی امت محروم ہے

 اس لیے اس دور میں اگر چہ   کچھ  ایسے واقعات  رونما ہوئے ہوں گے جن میں کسی ایک صحابی کی بات پر کچھ لوگوں نے عمل  شروع کردیا  ہو مگر اس سے غریب   خبر واحد روایات  کی حجیت پر  استدلال    کرنا پھر بھی       اسلامی اصول ” تبدیلی حالات سے شرعی احکام کی تبدیلی” کی خلاف ورزی   ہی ہوگا

روایات کے قبول کا قرآنی اصول

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایک اصول بیان کیا ہے: “یا ایہا الذین آمنوا اذا جاکم فاسق بنبا فتبینوا ان تصیبوا قوما بجهالة فتصبحوا علی ما فعلتم نادمین”۔

اس ایت میں  لفظ فاسق ہے جس کا ایک معنی تو وہ ہے جو لغت میں بیان کیا جاتا ہے یعنی  گنہگار یا غلط کام کرنے والا   لیکن یہاں یہ لغوی معنی یہاں مراد نہیں ہو سکتا کیونکہ یہاں مخاطب ایک صحابی ہیں جنہوں نے ایک مخصوص واقعے میں کوئی فسق یا گناہ کا کام ہی نہیں  کیاتھا بلکہ انہوں نے اپنے فہم کے مطابق استدلال کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک وہ  بات پہنچائی مگر ان کے پاس کسی قسم کی شہادت نہ تھی اس بلا شہادت بات کے نقل  کرنے کو  اللہ تبارک و تعالی نے فسق کے لفظ سے بیان کیا گویا فسق کا دوسرا معنی جو کہ اللہ تعالی کی کلام کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ” کوئی   ایسی بات کرنا جس کی شہادت موجود نہ ہو” اس  کو بھی فسق کہا جائے گا اور ایسا کرنے والے کو فاسق کہا جائے گا لیکن اس صورت میں اس کا معنی گنہگار اور خطا کار ہرگز نہیں ہوگا۔

چونکہ  خالق کائنات کا کلام  زیادہ مستند ہے و اور یہی فائنل اتھارٹی ہوگااور یہاں فاسق کا لفظ ایسے ادمی کے بارے میں استعمال ہوا ہے جو کہ پکے ، سچے اور مخلص مسلمان تھے اور وہ قطعا فاسق کی لغوی عام تعریف کے مطابق نہیں تھے اس لیے یہاں موقع محل کی مناسبت  اور  کلام کے سیاق اور سباق کی مناسبت سے ایت کا ترجمہ یہ ہوگا” اے ایمان والو جب تمہارے پاس کوئی بلا شہادت خبر بیان کرنے والا کوئی بات بتائے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو تاکہ تم ناواقفی کی وجہ سے کسی قوم پر حملہ نہ کر بیٹھو جس کے بعد تم کو  ندامت اٹھانی پڑے”۔

اس ایت کی رو سے غریب خبر واحد سے استدلال تو جائز ہی نہیں بنتا کیونکہ اللہ تعالی کا قران میں حکم ہے کہ بلا شہادت بات کی خوب تحقیق کر لیا کرو اور یہاں دوسری گواہی اور شہادت موجود ہی نہیں اور بغیر ثبوت کے کسی روایت کو قابل استدلال قرار دینا اس قرانی ایت کا یک  گونہ انکار ہے اور قران کریم کی اس ایت کے مقابل ایک فرد واحد کی بلا شہادت و ثبوت  روایت کو ترجیح اور فوقیت دینا ایک مسلمان کے شایان شان نہیں ہو سکتی

اس بات سے انکار نہیں بعض اوقات خبر واحد کسی عظیم صحابی کی روایت بھی ہو سکتی ہے جو سو فیصد سچ بھی ہو لیکن پھر بھی اس کو  تحقیق کرنے کے قرانی حکم کے سامنے خود کو  سرنگوں کرنا پڑے گا جیسا کہ اگر تین انتہائی عادل، شریف اور  نیک ادمی کسی مرد اور عورت کی بدکاری کی گواہی دیں تو قرانی اصول کے مطابق ان تینوں پر حد قذف لگے گی اگرچہ وہ اپنی جگہ سچے ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اللہ تعالی کا واضح فرمان ہے

فاذ لم جاتوا بالشهاده فاولئك عند الله هم الكاذبون

اگر وہ پوری گواہی پیش نہ کر سکے تو وہ اللہ کے ہاں جھوٹے ہیں

اسی طرح ایک عالم اور فقیہ صحابی کی غریب خبر واحد بھی قابل استدلال نہیں ہوگی کیونکہ وہ معیار شہادت پر پوری نہیں اتر رہی

غریب خبرواحد  روایات کا  نقصان

محدثین کرام نے احادیث کو جمع کرتے وقت اس کی سند کا تو خیال کیا ، الفاظ متن کی باریکیوں کو بھی مد نظر رکھا ، لیکن  ان محدثین کرام نے اپنی کتب میں غریب روایات کو بھی شامل کردیا ہے جس کی وجہ سے ایسی روایات بھی کتب حدیث میں موجود ہیں  جو بظاہر قران سے متعارض ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان سے انتہائی کمتر درجہ کی ہیں جس پر محدثین کرام کو بعض اوقات ایسی تاویلات اور تطبیقات کرنےپڑیں جن عقل سلیم تسلیم کرنے سے انکاری ہیں

اگر ایسی غریب روایات کو جمع کیا جائے جن کی تاویلات اور تطبیقات میں محدثین کو انتہائی رکیک قسم کی کوششیں کرنی پڑی ہیں  تو ایک کافی بڑا ذخیرہ جمع ہو  سکتا ہے حالانکہ ایسی کوششیں ہی فضول ہیں  کیونکہ جو  روایت  اسلامی  اصول و ضوابط سے ثابت ہی نہیں  اس کو تسلیم کرنا ،تاویل کرنا اور بعض اوقات  ایسی روایات کی وجہ سے آیات قرانی کی تشریح اور تخصیص کردینا ہی  درست نہیں   ہے۔

اور ایسی ہی روایات معاندین اور مخالفین اسلام کا اسلام کے خلاف ایک مضبوط اوزار اور ہتھیار ہیں جس کے ذریعے وہ اسلام کی طرف امادہ ہونے والوں کو برگشتہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں حالانکہ اسلامی  قانون کے تحت  وہ ثابت ہی نہیں  اگرچہ  سند میں بڑے مشہور نام بھی ہوں  وہ حضرت علی سے بڑے نہیں ہوسکتے جن کا دعوی قاضی شریح نے اس بنیاد پر مسترد کردیا تھا کہ  ان کے دعوی کے ثبوت میں دو گواہ  موجودنہیں تھے اور حضرت علی نے اسے تسلیم کرلیا تھا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top