اب سائنس نے ترقی کرلی اور جدیدکیلکولیٹر ایجاد کر لیا جس سے ایک عام استعدادکے حامل آدمی کے لئے بھی علم وراثت کا حصول بہت ہی آسان ہوگیا ۔ اس لیے اب صرف منقسم علیہ عدد ڈھونڈنے کے لئے تداخل تباین توافق تماثل سے حل کرنے میں توانائی صرف کرنا فضول ٹھہرا۔ اس جدید طریقہ کی مدد سے کوئی بھی شخص صرف اور صرف چند دنوں تقسیم وراثت بآسانی سیکھ سکتا ہے ایک مڈل پاس طالب علم کے لیے ایک ہفتے کا کام ہے اور ایک عالم صرف اور صرف ایک دن میں بھی سیکھ سکتا ہے
جبکہ دینی مدارس کے نصاب میں شامل مشہور کتاب سراجی کے ذریعے علم وراثت اتنا جلد سیکھنا ناممکن تو نہیں کہا جاسکتا البتہ انتہائی مشکل ضرور ہے اس مضمون کے تحریر کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے علماء کرام بھی اس جدید طریقہ کو چیک کریں ۔ اللہ تعالیٰ اس کا اجر انہیں عطاء فرمائے آمین
اب اس طریقہ کو انتہائی آسان اور وضاحتی انداز پیش کیا جاتا ہے تاکہ نہ صرف علماء بلکہ طلباء بلکہ دیگر اہل علم بھی اس سے آسانی سے استفادہ کرسکیں اور انہیں کسی دقت اور مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے
اس طریقہ میں ہر مسئلہ کو 24 سے ہی حل کرلیا جائے کیونکہ تقسیم وراثت میں صرف مندرجہ ذیل اعداد پر ہی حصص تقسیم ہوتے ہیں(2 ،3، 4، 6، 8 ،12 ،24 )،اور 24 کا عدد دیگر ہر چھوٹے عدد پرتقسیم ہوسکتا ہے ،اور کیلکو لیٹرکی وجہ حسابی عمل کی پیچیدگی اور طوالت بھی نہیں ہوگی،اب صرف آسانی کی خاطر منقسم علیہ عدد ڈھونڈنے کے لئے تداخل تباین توافق تماثل سے حل کرنے میں توانائی صرف کرنے کا کیا فائدہ ؟
اس نئے طریقہ کار میں ترکہ کےکل 24 حصے فرض کرنا اور پھر اسی تناسب سے وارث کے حصے کو بھی بڑہانا ہے ۔
مثلا: اولاد کی موجودگی میں بیوی کا حصہ آٹھواں یعنی 8/1 ہوتا ہے اسے 24 میں تبدیل کرنے سے 24/3 ہوجائے گا اسی طرح بیٹوں کی غیر موجودگی میں دو بیٹیوں کو دو تہائی یعنی 3/2 ملتا ہے اسے 24 سے تبدیل کرنے پر 24/16 ہوجائے گا یہ ایک آسان سی بات ہے البتہ اس کے لیے سب سے پہلے ذوی الفروض کے حصص اور عصبات کی ترتیب معلوم ہونا ضروری ہے ان کے سامنے اس نئےاور جدید انداز سے حصے بھی لکھ دیئے ہیں۔
نقشہ نمبر 1
پہلے ورثاء( ذوی الفروض ) کے حصے
نمبر | وارث | حصہ | شرائط |
1. | خاوند | 24/12 | اولاد نہ ہو |
2. | خاوند | 24/6 | اولاد ہو |
3. | بیوی | 24/6 | اولاد نہ ہو |
4. | بیوی | 24/3 | اولاد ہو |
5. | ایک بیٹی | 24/12 | بیٹا نہ ہو |
6. | دو یا زیادہ بیٹیاں | 24/16 | بیٹا نہ ہو |
7. | ایک پوتی | 24/12 | بیٹا ،بیٹی اور پوتا نہ ہو |
8. | دو یا زیادہ پوتیاں | 24/16 | بیٹا ،بیٹی اور پوتا نہ ہو |
9. | پوتی ایک یا زیادہ | 24/4 | صرف ایک بیٹی ہو اورکوئی بیٹا ، اور پوتا نہ ہو |
10. | ایک پڑپوتی | 24/12 | بیٹا ،بیٹی ، پوتا،پوتی اوپڑپوتا نہ ہو |
11. | دو یا زیادہ پڑ پوتیاں | 24/16 | بیٹا ،بیٹی ، پوتا،پوتی اوپڑپوتا نہ ہو |
12. | پڑپوتی ایک یا زیادہ | 24/1 | صرف ایک بیٹی یا ایک پوتی ہو لیکن کوئی بیٹا ، پوتا، اورپڑپوتا نہ ہو |
13. | باپ | 24/4 | اولاد ہو |
14. | دادا | 24/4 | اولاد ہو باپ نہ ہو |
15. | ماں | 24/8 | دیگر ذوی الفروض کوئی نہ ہو |
16. | ماں | 24/6 | صرف بیوی اور باپ ہو |
17. | ماں | 24/4 | اولادہویاپھرخاونداورباپ دونوں ہوں یاکوئی حقیقی، علاتی یا اخیافی بہن بھائی ہوں |
18. | دادی نانی | 24/4 | والدین نہ ہوں ماں نہ ہو |
19. | ایک اخیافی بہن بھائی | 24/4 | اولاد اور باپ دادا نہ ہوں۔ یہاں ہر عورت اور مرد کو برابر حصہ ملے گا |
20. | دویازائداخیافی بہن بھائی | 24/8 | اولاد اور باپ دادا نہ ہوں ۔یہاں ہر عورت اور مرد کو برابر حصہ ملے گا |
21. | ایک حقیقی بہن | 24/12 | اولاد اور باپ دادا اور حقیقی بھائی نہ ہوں |
22. | دو یا زائد حقیقی بہنیں | 24/16 | اولاد اور باپ دادا اور حقیقی بھائی نہ ہوں |
23. | ایک علاتی بہن | 24/12 | اولاد ،باپ ،دادا ،حقیقی بھائی، حقیقی بہن اورعلاتی بھائی نہ ہوں |
24. | دو یا زائد علاتی بہنیں | 24/16 | اولاد ،باپ ،دادا ،حقیقی بھائی، حقیقی بہن اورعلاتی بھائی نہ ہوں |
25. | ایک علاتی بہن | 24/4 | صرف ایک حقیقی بہن ہو،باقی اولاد ، باپ، دادا ، حقیقی بھائی اورعلاتی بھائی کوئی نہ ہوں |
تکملہ ثلثین:
اگر میت کی دو یا دوسے زائدہ بیٹیاں ہوں تو ان کو دو تہائی ملے گا اس صورت میں اگر کوئی پوتی ہو تو وہ محروم ہو جائے گی اور اگر ایک بیٹی ہو تو اس کو نصف ملتا ہے اس صورت میں اگر ایک پوتی ہو یا زائد ہوں تو ان کو سدس ملتا ہےاس طرح ان دونو ں کامجموعی حصہ دو تہائی بن جائے گا (24/4+24/12 =24/16) جوکہ دو بیٹیوں کا مخصوص حصہ ہے۔
ان ذوی الفروض سے جو ترکہ بچے گا وہ درج ذیل ترتیب سے عصبات میں تقسیم ہوگا ان میں سے سب سے قریبی یا پہلے نمبر والا وارث باقی تمام دوسرے ورثاء کو محروم کردیتا ہے
نقشہ نمبر 2
ترتیب عصبات اور عصبہ ورثاءکے حصے
نمبر | وارث | شرائط |
26. | بیٹا،بیٹی | یہاں ہر مرد کو عورت سے دگنا ملے گا اور مرد زندہ نہ ہو تو عورت یہاں محروم ہوگی |
27. | پوتا ،پوتی | یہاں ہر مرد کو عورت سے دگنا ملے گا اور مرد زندہ نہ ہو تو عورت یہاں محروم ہوگی |
28. | پڑوتا،پڑوتی | یہاں ہر مرد کو عورت سے دگنا ملے گا اور مرد زندہ نہ ہو تو عورت یہاں محروم ہوگی پڑوتا کے ساتھ پوتی کو بھی حصہ ملے گا بشرطیکہ وہ ذوی الفروض میں محروم رہی ہو |
29. | باپ | چھٹا حصہ |
30. | دادا | چھٹا حصہ اگر باپ نہ ہو |
31. | حقیقی بھائی و بہن | یہاں ہر مرد کو عورت سے دگنا ملے گااور اگر مرد زندہ نہ ہو تو عورت کو اس صورت میں حصہ ملے گا جب وہ بطورذوی الفروض میں محروم رہی ہو |
32. | علاتی بھائی و بہن | یہاں ہر مرد کو عورت سے دگنا ملے گااور اگر مرد زندہ نہ ہو تو عورت کو اس صورت میں حصہ ملے گا جب وہ بطورذوی الفروض میں محروم رہی ہو |
33. | چچا كي اولاد | اگر ديگر عصبات موجود نه هوں تو حقیقی چچا کی اولاد وارث هوگي اگر يه نه هوں تو ان کی عدم موجود گی میں علاتی چچا کی اولاد وارث ہوگی۔اور اگر یہ بھی نہ ہوں تو حقيقي چچا كي اولاد كي اولاد وارث هوگي اور ان كي عدم موجودگي ميں علاتي چچا كي اولاد كي اولاد وارث هوگي اگر ان ميں سے كسي كي اولاد نه هو تو ميت كے باپ کا حقیقی چچا وارث هوگا اور اس کی عدم موجودگی میں ميت كے باپ کا علاتي چچا وارث هوگا اور اس كي عدم موجودگي ميں ميت كے باپ كے حقيقي چچا كي اولاد وارث هوگي اور ان كي عدم موجودگي ميں ميت كے باپ كے علاتي چچا كي اولاد وارث هوگي اسي طرح مزيد آگے بهي ممكن هے اور اگر ان میں سے کسی کی اولاد نہ ہو تو پھر میت کے دادا کا حقیقی بھائی وارث ہوگا اور اگر یہ نہ ہو تو میت کے دادا کا علاتی بھائی وارث ہوگا اور اس کی عدم موجودگی میں الاقراب فالاقرب کے اصول کے تحت پہلے حقیقی جانب کی اولاد وارث ہوگی اور اگر یہ نہ ہوں تو ہھر علاتی جانب کی اولاد وارث ہوگی |
34. | مسئلہ رد | اگر مذکورہ بالا میں سے کوئی عصبہ بھی موجود نہ ہو تو خاوند اور بیوی کے علاوہ دیگر ذوی الفروض میں ان کے حصص کے تناسب سے ترکہ تقسیم ہوگا |
35. | ذوی الارحام | اگر مندرجہ بالا وارثوں میں سے کوئی ایک بھی نہ ہو تو پھر ذوی الارحام کو ملے گا،اگر ایک بھی عصبہ میں وارث ہو تو اسے سارا ترکہ مل جائے گا چونکہ ایسا شاذ و نادر میت ہوتا ہے جس کے مذکورہ بالا ورثاء میں سے کوئی ایک بھی وارث نہ ہوں اس لیئے ذوی الارحام کی تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں |
36. | وصیت | جسے تمام مال کی میت نے وصیت کر دی ہو |
جتنے وارث زندہ موجود ہوں ان کے نام لکھ کر ان کے سامنے اس چارٹ کی مدد سے ان کے حصے بھی لکھتے جائیں شرائط کا خاص خیال رکھیں جن ورثاء کو کسی وارث کی وجہ سے حصہ نہ ملے اس کے سامنے محروم لکھ دیں باقی ہر وارث کے حصےکو کل ترکہ سے ضرب دیدیں جواب تیار ہے ۔
مسائل متفرقہ :
(1)اگر میّت کے وارث صرف نانا اور نانی ہی زندہ ہوں باقی کوئی بھی نہ ہو تو سارا ترکہ نانی کو ملتا ہے نانا محروم ہوتاہے
(2) مندرجہ ذیل لوگ وارث نہیں ہو تے ، سوتیلا باپ ، سوتیلی ماں ، سسر ، ساس ،بہو، دیور ، نند ، بھاوج ، سالے ، سالیاں ، وارث مردکی بیوی ، وارث بیوی کا خاوند ، منہ بولا بیٹا ۔
مذکوہ جدید طریقہ کی چند مثالوں سے وضاحت کی جاتی ہے :
مثال نمبر 1:
میت شریف صاحب کے ورثاء میں ان کی ماں ،ایک حقیقی بہن ،ایک علاتی(سوتیلا) بھائی، ایک بیٹی اور ایک پوتی ہےاور ان کا کل ترکہ 1000 روپے ہے تو اسے درج ذیل انداز سے بڑی آسانی سے تقسیم کیا جاسکتا ہے ان کے بالترتیب نام لکھ کر چارٹ کی مدد سے حصے بھی لکھ دیں اور پھر کل ترکہ کو حصے سے ضرب کردیں جواب بالکل آسانی سے تیار ہے ۔
نمبر | ورثاء | حصہ | تقسیم | رقم |
1 | ماں | 4/24 | 4/24×1000 | 166.66 |
2 | ایک حقیقی بہن | عصبہ | عصبہ کو ذوی الفروض سے بقایا ترکہ ملے گا | |
3 | ایک علاتی(سوتیلا) بھائی | محروم | عصبہ حقیقی بہن کی موجودگی علاتی بھائی محروم ہوتا ہے | |
4 | ایک بیٹی | 12/24 | 24/12×1000 | 500.00 |
5 | ایک پوتی | 4/24 | 4/24×1000 | 166.66 |
6 | ذوی الفروض میں کل تقسیم شدہ | 24/20 | ||
7 | بقایا حصے | 4/24 | یہ حصہ اب عصبہ کو ملے گا |
ایک حقیقی بہن کو چھوڑ کر باقی تمام ورثاء کو کل مال کا 24/20 حصہ مل گیا اب بقایا 24/4 حصہ بچ گیا ہے جو اس کی حقیقی بہن کو ملے گا لھذا
8 | ایک حقیقی بہن | 4/24 | 4/24×1000 | 166.66 |
لھذا اب اسے ترتیب سے لکھا جائے
مثال نمبر 2: ترکہ 1000
نمبر | ورثاء | حصہ | تقسیم | رقم |
بیوی | 24/6 | 24/6× 1000 | 250 | |
نانی | 4/24 | 4/24×1000 | 166.66 | |
والد | 4/24 | 4/24×1000 | 166.66 | |
کل تقسیم شدہ حصے | 24/14 | |||
بقایاحصےعصبہ(والد) | 24/10 | 24/10×1000 | 416.66 |
اس میں ذوی الفروض کے کل تقسیم شدہ 24/14 حصے ہیں بقایا 24/10 حصےبچ گئے جو عصبہ کو ملیں گے جوکہ یہاں والد ہے گویاوالد کو ذوی الفروض کے حصہ کے علاوہ عصبہ کا بھی حصہ ملا اس طرح اسے 24/10+4 =24/14 حصے ملیں گے
مثال نمبر 3: مسئلہ عول
اکثر مسائل 24 سے حل ہوجاتے ہیں لیکن کبھی ورثاء کے حصوں کی تعداد بڑھ جاتی ہےاس صورت میں حصوں کو چھوٹے کرکے ان کی تعداد کوبڑھا دیا جاتا ہے اسے عول کہا جاتا ہے اور یہ عول زیاد ہ سے زیادہ چالیس تک ہو سکتا ہے۔ اس جدید طریقہ میں عول [i]کے مسائل بھی اسی انداز سے بڑی آسانی سے حل کیے جاسکتے ہیں۔
مثلا : میت جمیل کےورثاء 2 بیویاں ، ماں ،باپ، 2 بیٹیاں اور ترکہ 1000ہے
نمبر | ورثاء | حصہ | تقسیم | کل حصہ فریق | فی فرد حصہ |
1 | 2 بیویاں | 24/3 | حصوں کوترکہ سے ضرب مثلا 27/4×1000 =148.148 | 111.11 | 55.55 |
2 | ماں | 24/4 | 148.148 | 148.148 | |
3 | باپ | 24/4 | 148.148 | 148.148 | |
4 | 2 بیٹیاں | 24/16 | 27/16×1000 = | 592.59 | 296.29 |
کل حصے | 27 |
ان ذوی الفروض کے حصص جمع کرنے پر 27 ہوگئے تھے اس لیے کل قابل تقسیم حصص ہی 27 کردیئے
مثال نمبر 4: وارثاء ایک بیوی،ماں،ایک علاتی اور ایک اخیافی بہن ،اور ایک نانی ترکہ 39000
نمبر | ورثاء | حصہ | تقسیم | رقم |
1 | بیوی | 24/6 | 26/6×39000 | 9000 |
2 | ماں | 24/4 | 26/4×39000 | 6000 |
3 | علاتی(سوتیلی) بہن | 24/12 | 26/4×39000 | 6000 |
4 | اخیافی(ماں شریک) | 24/4 | 26/12×39000 | 18000 |
5 | نانی | محروم | ماں کی وجہ سے محروم | |
کل حصے | 26 |
یہاں کل 26 حصےبن رہے تھے اس لیے انہیں 26 پر ہی تقسیم کردیا گیا
مثال نمبر 5: مسئلہ رد
اگر ذوی الفروض ورثاءکے علاوہ عصبات میں سےسیریل نمبر 26 تا 33 کوئی وارث نہ ہو تو بقیہ ترکہ کو خاوند اور بیوی نکال کر باقی ورثاء پر ان کے حصوں کے تناسب سے تقسیم کیا جاتا ہے چونکہ خاوند بیوی صرف نکاح سے ایک دوسرے کے وارث بنے ہیں اس لیے انہیں ذوی الفروض سببی کہا جاتا ہے کہ یہ ایک سببی اور اتفا قیہ رشتہ ہے اس لیے انہیں مسئلہ رد میں شامل نہیں کیا جا تا جب کہ دیگر ورثاء ذوی الفروض نسبی (نسبی وارث)کہلاتے ہیں ۔
مثلا ایک آدمی مرا اور اس کے ورثاء میں ایک بیوی،ایک حقیقی اور ایک علاتی بہن اور اس کا ترکہ 80000
نمبر | ورثاء | حصہ | تقسیم | رقم |
1 | بیوی | 24/6 | 24/6×80000 | 20000 |
2 | حقیقی بہن | 24/12 | 16/24/12×18×80000 | 45000 |
3 | علاتی بہن | 24/4 | 16/24/4×18×80000 | 15000 |
4 | تقسیم شدہ حصے | 22 |
یہاں کچھ حصے (24/2)بچ گئے ہیں انہیں صرف ذوی الفروض نسبی پر ان کے حصوں کے تناسب سے تقسیم کیا جائے گا اس لیے ایک بار مزید تقسیم ہوگی یہاں ذوی الفروض سببی بیوی ہے۔ اس دوسری تقسیم میں اس کے حصے ختم کرنے پر بقایا ترکہ ان کے اپنے حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوگا اور ان باقی دو ورثاء حقیقی بہن اور علاتی بہن کے حصے 12+4=16 ہوتے ہیں یعنی دوسری تقسیم میں بیوی کے 6 حصے نکال کر بقایا 18 حصوں کو بالترتیب 16 اور 4 کی نسبت سے تقسیم کیا جائے گا
مثال نمبر 6: مسئلہ رد ترکہ 24000
نمبر | ورثاء | حصہ | تقسیم | رقم فریق | رقم فرد |
1 | بیوی | 24/3 | 24/3×24000 | 3000 | 3000 |
2 | 5 بیٹیاں | 24/4 | 16/24/16×21×24000 | 21000 | 4200 |
3 | 5 پوتیاں | محروم | |||
4 | 5 ماں شریک بھائی | محروم |
مثال نمبر 7 :
ایک عورت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے پاس آئی اور کہا میرے بھائی نے چھ سو اشرفیاں ترکہ چھوڑا مجھے صرف ایک اشرفی دی گئی ہے۔
امام صاحب نے پوچھا کہ ترکہ کس نے تقسیم کیا تو اس نے کہا کہ آپ کے شاگرد شیخ داوٴد طائی نے ترکہ تقسیم کیا ہے توآپ نے فرمایا وہ ناحق ظلم کرنے والا نہیں۔ امام صاحب نے کہا اچھا یہ بتا کیا تیرے بھا ئی کی دادی ہے اس نے کہا ہاں ۔
امام صاحب نے پوچھا کہ کیا تیرے بھائی کی دوبیٹیا ں بھی ہیں اس نے کہا ہاں ،امام صاحب نے پوچھا کہ کیاتیرے بھائی کی بیوی بھی ہے اس نے کہا ہاں ، امام صاحب نے پوچھا کہ کیاتیرے بھائی کے بارہ بھا ئی بھی ہیں اس نے کہا ہاں ،امام صاحب نے فرمایا پھرتیرا حصّہ ایک ہی اشرفی بنتی ہے ۔ اس واقعہ کو جدید انداز سے یوں لکھا جائے گا
ورثاء ایک بیوی، 2 بیٹیاں ، 12 بھائی، 1 بہن ، اور دادی کل ترکہ 600
نمبر | ورثاء | حصہ | تقسیم | رقم فریق | رقم فرد |
1 | بیوی | 24/3 | 24/3×600 | 75 | 75 |
2 | 2 بیٹیاں | 24/16 | 24/16×600 | 400 | 200 |
3 | 12 بھائی 1 بہن | عصبہ | 24/1×600 =25 | 24 1 | 2 1 |
دادی | 24/4 | 24/4×600 | 100 | 100 | |
کل حصے | 23 |
ذوی الفروض کو ترکہ تقسیم کرنے کے بعد صرف ایک حصہ بچا جو میت کے بارہ بھائیوں اور ایک بہن میں تقسیم ہوا
صرف ان سات مثالوں سے یہ جدید طریقہ بخوبی سمجھ آسکتا ہے اور ذوی الفروض اور عصبات کے تمام مسائل چند منٹوں بآسانی حل ہوسکتے ہیں۔ باقی تیسری قسم ذوی الارحام ورثاء کا شاذ و نادر ہی کوئی ایک کیس ہوسکتا ہے