احادیث وآثار کی ترتیب و تقسیم  کا جدید تحقیقی اسلوب

وقت اور حالات بدلنے سے مسائل کے احکام تک بدل جاتے ہیں جو چیز کچھ عرصہ پہلے تک حرام اور ممنوع تھی وہ حالات بدلنے پر جائز بلکہ لازمی بھی ہو سکتی ہے اور بالکل اسی طرح جائز امور کی ممانعت ہو سکتی ہے جس کا ارتکاب کرنا جرم اور گناہ شمار ہو سکتا ہے
قرآن کریم میں مجبوری کی حالت میں مردار بلکہ خنزیر تک کھا لینے کی اجازت ہے اور اگر شدید بھوک کے باوجود حلال چیز کی عدم موجودگی میں کوئی دستیاب حرام چیز نہ کھائی اور مر گیا تو وہ مجرم ہوگا
جدید ٹیکنالوجی نے بھی دنیا کو نہ صرف بدل کر بلکہ سمیٹ کر ایک عالمگیر گاؤں اور گلوبل ویلج بنا ڈالا ہے اور اس کے جہاں ہر شعبہ اور میدان میں وسیع اثرات پڑے ہیں وہاں علمی اور تحقیقی میدان میں بھی عظیم انقلاب آ گیا ہے
 پہلے جہاں کسی حوالہ اور ریفرنس کی تلاش میں میں ہفتوں یا مہینوں لگ جاتے تھے اب وہ مکمل تفصیلات کے ساتھ چند ہی منٹوں میں کمپیوٹر کی سکرین پر نمودار ہو جاتا ہے
پہلے جو کتابیں نادر اور نایاب تھی اور دنیا کے کسی بھی علاقہ میں شاید عام طور پر دستیاب بھی نہ ہو ں, اب چند منٹوں میں نیٹ پر اپلوڈ ہو کر دنیا بھر میں مفت مل سکتی ہے
اب ریسرچ سکالر اور محققین کی ذمہ داری ہے کہ اپنی مسلکی سوچ ، سابقہ نظریات اور خیالات اور کسی بھی قسم کی عصبیت سے بالاتر ہو کر خالص علمی اور تحقیقی انداز سے کام کریں
دینی اور اسلامی موضوعات کے مطالعہ کے دوران تحقیقی عمل کو زیادہ نتیجہ خیز اور موثر بنانے کے لیے از حد ضروری ہے اور لازمی ہے ہوگا کہ قرآن اور سنت کے فہم کے لیے صحابہ کرام کی ایسی روایات اور تعلیمات کو معیار اول قرار دیا جائے جس کو کم از کم دو مستند واسطوں سے سے نقل کیا گیا ہو  کیونکہ قرآن کریم نے ثبوت کے لئے کم از کم دو گواہوں کی گواہی لازمی قرار دی ہے  لہذا  شہادت کے مقررہ قرآنی معیار سے کم تر روایات کو ایمانیات و عقائد سمیت اہم مسائل میں بنیاد بنا کر نظر یات قائم کرنا یا مسائل کی تخریج کرنا یک گونہ تعلیمات قرآنی سے انحراف کے زمرے میں آئے گا
 علاوہ ازیں قرآن کریم نے  ایک موقع پر وضاحت کے ساتھ  یہ بھی بیان کر دیا ہے
ما ننسخ من ایة او ننسھا نات بخیر منھا او مثلھا
جو حکم منسوخ کردیا جائے یا اسے( لوگوں کو ذہن سے بھی) بھلا دیا جائے ہم اس سے بہتر یا اسی جیسا متبادل حکم پیش کر دیتے ہیں
 اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی مسئلے میں کوئی روایت  غریب خبرواحدکے درجے میں موجود ہو تو اس بات کی علامت تو ہو سکتی ہے کہ یہ حکم بھی کبھی موجود تھا اور شاید اس پر کبھی عمل بھی کیا گیا ہو مگرموجودہ حالات میں شرط شہادت کی عدم موجودگی اور درجہ استناد اور استشہاد سے گر جانے کی وجہ سے سے قابل عمل نہ رہے گی اور اس اصول کی بنیاد پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نےحضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ کی جانب سے سے ایک حدیث نقل کرنے پر پر گواہ طلب کرلیا تھا
كنت في مجلس من مجالس الأنصار إذ جاء أبو موسٰى كأنه مذعور فقال: استأذنت علىٰ عمر ثلاثًا فلم يؤذن لي فرجعت فقال ما منعك؟ قلت استأذنت ثلاثًا فلم يؤذن لي فرجعتُ وقال رسول الله ﷺ: «إذا استأذن أحدكم ثلاثًا فلم يؤذن له فليرجع». فقال والله لتقيمن عليه بينة، أ منكم أحد سمعه من النبي ﷺ؟ فقال أبي بن كعب والله لا يقوم معك إلا أصغر القوم، فكنتُ أصغر القوم فقمتُ معه فأخبرت عمر أن النبي ﷺ قال ذلك»9
”میں انصار کی ایک مجلس میں حاضر تھا، اس وقت حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ گھبرائے ہوئے آئے اور کہا کہ میں نے حضرت عمرؓ کے پاس جانےکے لیے دروازے پرکھڑے ہوکر تین دفعہ اندر جانے کی اجازت طلب کی،لیکن اجازت نہ ملنے پر میں واپس آگیا تو حضرت عمرؓ نے مجھے بلا کر وجہ پوچھی تو میں نے کہا: میں نے تین دفعہ اجازت طلب کی تھی لیکن جواب نہ آنے پر میں واپس ہوگیا، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:جب تم میں سے کسی شخص کو تین مرتبہ اجازت طلب کرنے کے باوجود اجازت نہ ملے تو اسے واپس ہوجانا چاہیے، تو یہ حدیث سن کر سیدناعمر فاروقؓ نے کہا: اس حدیث پر کوئی گواہ پیش کرو جس نے آپ کےساتھ اس حدیث کو سنا ہو تو سیدنا ابوموسیٰ اشعریؓ نے ہم سے کہا: کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص ہے جس نے میری طرح اس حدیث کو نبی اکرمﷺ سےسنا ہو؟ تو اہل مجلس میں سے حضرت اُبی بن کعبؓ نے کہا کہ اس حدیث کو تو ہم میں سب سے چھوٹی عمر والا (یعنی ابوسعید خدریؓ) بھی جانتا ہے، تو ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں: میں ابوموسیٰ اشعریؓ کےساتھ حضرت عمرؓ کے پاس گیا اور جاکر ان سے کہا کہ واقعی رسول اللہ ﷺ نے ایسا فرمایا ہے۔
تحقیق کے اس جدید اسلوب اور انداز فکر سے کیئے گئے تحقیقی کام میں شاذ و نادر  اقوال، ضعیف و موضوع روایات، معاندانہ ومخاصمانہ بنیاد پر بیان کی گئے تاریخی واقعات کی کافی حد تک ازخود چھانٹی ہوجائے گی
اس کے لیے ذخیرہ احادیث کو  مشکوک،  ضعیف ،جھوٹی ،مردود اور من گھڑت  روایات کوالگ اور صاف کرنے کے لیے  جدیدتحقیقی  انداز سے  کام کرنا ہو گا  اور اس کام کو آسانی سے سرانجام دینے کے لیے  جملہ راویوں اور روایات و آثار کی  کو جدید اور آسان  ترتیب و تقسیم   کا طریقہ اپنانا ہوگا
روایات و آثار کا جدید انداز ترتیب و تقسیم
  روایت  یا حدیث   ۔     سے مرادنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ، فعل اورتقریر
اثر۔۔۔۔۔۔۔۔۔سے مراد صحابہ کرام کے ا قوال  ،افعال  یا احوال
راویوں کے مختلف درجات ہیں
   جید راوی :       جس راوی کے بارے میں درج ذیل الفاظ کہے گئے ہوں
صحابی، لہ صحبۃ، ثقة ثقة، كثقة حافظ، ثقة ، متقن ، ثبت
اور  ان پر  کم از کم دو ائمہ  فن رجال نے جرح  نہ کی ہو تاہم ایک امام کی جرح کا اعتبار نہیں ہوگا
مقبول راوی :     جس راوی کے بارے میں ائمہ فن رجال نے درج ذیل الفاظ کہے ہوں
صدوق ، لا بأس به،  ليس به بأس .
اور  ان پر  کم از کم دو ائمہ  فن رجال نے مزید  جرح  نہ کی ہو
مشکوک راوی  :     جس راوی کے بارے میں ائمہ فن رجال نے درج ذیل الفاظ کہے ہوں
صدوق سئ الحفظ،  صدوق يهم ، صدوق له أوهام،  يُخطئ،  تغير بآخرہ، رمي بنوع بدعة ، ليس له من الحديث إلا القليل، ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله ويشار إليه بمقبول حيث يتابع وإلا فليِّن الحديث .
مجہول راوی    :    جس راوی کے بارے میں ائمہ فن رجال نے درج ذیل الفاظ کہے ہوں
من روى عنه أكثر من واحد ولم يوثق ويشار إليه بـ ( مستور ) أو مجهول الحال .من لم يوجد فيه توثيق معتبر، وجاء فيه تضعيف وإن لم يبيَّن والإشارة إليه ضعيف .من لم يرو عنه غير واحد ولم يوثق، ويقال فيه: مجهول .
  ضعیف راوی :  جس راوی کے بارے میں ائمہ فن رجال نے درج ذیل الفاظ کہے ہوں
من لم يوثق البتة وضعف مع ذلك بقادح، ويقال فيه: متروك أو منروك الحديث، أو واهي الحديث، أو ساقط ،من اتهم بالكذب، ويقال فيه متهم، ومتهم بالكذب .من أطلق عليه اسم الكذب والوضع ككذاب أو وضاع أو يضع أو ما أكذبه ونحوها.
 روایات کی اقسام
محکم روایت        :   جو کم از کم تین  صحابہ سے نقل ہو اور اس کی  کم از کم تین اسناد میں کوئی بھی مشکوک راوی نہ ہو
 مستحکم روایت:    جو کم از کم  دوصحابہ سے نقل ہو اور اس کی  کم از کم  دو اسناد میں کوئی بھی مشکوک راوی نہ ہو
مستند  اثر:   کوئی سے تین صحابہ کا ایسا  عمل یا فرمان جن کی  سند  میں مشکوک راوی نہ ہو
معلول روایت    :  جس کی سند تو معتبر ہو مگر اس میں دوسری  کوئی مخفی  کمزوری ہو
ضعیف   روایت :  جس  کا کوئی بھی ایک راوی مجروح ہو یا ضعف کی کوئی  اور وجہ پائی جائے جیسے سند میں انقطاع
مردود راوایت   :  جس کا مضمون کسی آیت سے متعارض ہو
موضوع روایت :  من گھڑت روایت جس کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف خود ساختہ نسبت  کی گئی ہو

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top