اسلامی تعلیمات اور اصول وقواعد سے متضاد روایات اور اقوال کی چھانٹی

اسلامی تعلیمات اور اصول وقواعد سے متضاد روایات اور اقوال کی چھانٹی

ملحدین اور معاندین اسلام کی جانب سے اس وقت دنیا بھر سے عالم اسلام  کے سایہ عاطفت میں شمولیت کے خواہشمند لوگوں کو برگشتہ کرنے اور دین کے بارے میں کم معلومات رکھنے  والے عام افراد  کو اسلام سے  دور کرنے کے لیے جو مواد ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے وہ ذخیرہ کتب میں  ایسی  موجود روایات ہیں جن  کا کوئی   ثبوت ہےاور نہ ہی ان کے متعلق کوئی شہادت دستیاب ہے۔ ان روایات  کو اس دور کے کچھ مصنفین  اور ناقلین  کی جانب سےاپنی تصانیف میں تحقیق کے بغیر ہی    درج کردیا  تھا تا کہ اس موضوع پر کوئی بات رہ نہ جائے کیونکہ ان مصنفین کا کام صرف ان اقوال کو نقل کرنا اور جمع کرنا تھا نہ کہ تحقیق کرنا۔  اس لیے  ان مصنفین نے اپنے دور میں  موجود تمام   رطب و یابس   اور دستیاب  روایات نقل کیں  اورتحریری شکل میں  محققین کے ذمہ سپرد کرکے چلے گئے ۔

یہی وجہ ہے کہ اسلامی ذخیرہ کتب میں ایسی ایسی  روایات اور واقعات  بھی موجود ہیں جنہیں عقل سلیم تسلیم ہی نہیں کر سکتا  اور  انہی اقوال  کو بنیاد بناکر ملحدین اور دشمنان اسلام عام مسلمانوں کو عموما  اور اسلام کی جانب مائل ہونے والوں اور نومسلم طبقہ  کو خصوصا برگشتہ کرنے کی بھر پور مساعی سرانجام دیتے ہیں ۔

ملحدین کی جانب سے  بڑے زور و شور سے اسے اسلامی لٹریچر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ اسلامی لٹریچر  صرف  وہی کہلانے کامستحق ہے جو تعلیم قرآنی  اوراس کے مقررکردہ واضح اصول اور قواعد  کے مطابق  ہو نہ یہ کہ کسی بھی مجہول و نامعلوم ،فاسق و کاذب کی خرافات کو ایمانیا ت  اور اسلامی تعلیمات   کی بنیاد سمجھ لی جائے کیونکہ  قرآن کریم  میں واضح طور پر کسی بھی فرد  کے  عمومی اور شخصی امور و معاملات کے بارے میں دعوے کے ثبوت کے لیے دو گواہوں کی شہادت لازمی قرار دی گئی ہے۔

    ایمانیات اور اسلامی تعلیمات  میں تو مزید سخت اصول و قواعد کی ضرورت درکار ہوگی  تاکہ کسی کی خرافات کو نبی کرام ﷺ کی بات کی حیثیت  اور مقام کے برابر رکھا اور سمجھا نہ جاسکے اوراسی اصول کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ  نے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک  حدیث بیان کرنے پر ان سے ثبوت اور گواہ طلب کرلیا تھا۔

اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے  اس اعلان  میں صحابی اور غیر صحابی  میں کسی قسم کافر ق نہیں رکھا گیا  تھا اور سب کے لئے ایک ہی اصول  تھا مگر  فقہائے  امت کے  فیصلے کے مطابق”  الصحابۃ کلہم عدول” کے تحت  صحابہ مستثنی  ہونگے البتہ  صحابہ کرام کے بعد کے تمام راویوں پر لاگو ضرور ہونا چاہ

اسی ایک اصول سے جملہ ذخیرہ روایات سے شاذ و نادر اقوال ، موضوع  روایات ، اور  معاندانہ و مخاصمانہ بنیاد پر لکھے گئے تاریخی واقعات کی از خود چھانٹی اور صفائی   ہو جائے گی کیونکہ جس طرح جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے  بالکل  اسی طرح  غیر مستند اور موضوع روایات کی مستند شہادت ہی نہیں ہوتی اور شہادت کے بغیرتو دنیاوی معاملات میں  بھی  کسی کی انفرادی بات اور روایت کی کوئی وقعت  نہیں ہوتی  نہ ہی  دنیا کی کوئی عدالت اسے تسلیم کرتی ہے   تو ایمانیات  اور اسلام سے متعلقہ امور میں صحابی کے علاوہ وہ  بھی  کسی   راوی کی کی ایسی منفرد روایت  جس کا کوئی بھی مستند تصدیق کنندہ نہ ہو کو قبول کرنا بذات خود اسلامی تعلیم سے انحراف قرار پائے  گا اور یہی اصول ملحدین اور معاندین اسلام کے ہتھیار کا زبردست توڑ ثابت ہو گا کیونکہ ضعیف روایات   اور من گھڑت تاریخی واقعات  کی مستند شہادت ہی نہیں ہوتی

چونکہ جدید ٹیکنالوجی نے اسلامی ذخیرہ روایات کی تلاش اور تحقیق نہایت آسان کر دی ہے ۔  نہ صرف دنیا بھر  کی کتب   بلکہ نادر و نایاب مخطوطات تک بھی رسائی آسان ہوچکی ہے  جس کی وجہ ایک محقق دنیا کے کسی گوشے میں بیٹھا کسی بھی موضوع پر تمام روایات اور ان کی اسناد  کاہر پہلو سے   تنقیدی،تحقیقی اور تقابلی جائزہ لے کر کسی بھی مسئلہ کی گہرائی تک پہنچ سکتا ہے    جس کے بعد  علماء و محققین کے لیے ایسی روایات کو اپنے نظریات اور اعمال کا مدار عمل سمجھ لینا اللہ تعالی کے ہاں قابل مواخذہ ہو سکتا ہے

اس انداز تحقیق کی روشنی میں کسی بھی غیر متعصب محقق کو   کہیں  امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول صائب نظر آئے گا تو کہیں امام شافعی رحمہ اللہ کا قول مستحکم  دکھائی دے گا  ااور کہیں امام شافعی رحمہ اللہ اقر ب الی بالصواب ہوں گے اور کہیں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول راجح  معلوم ہوگا

لیکن چونکہ یہ سارا عمل فقہاء کرام رحمہم اللہ اور محدثین عظام رحمہم اللہ کے اکثریتی قواعد کی روشنی میں اور تلفیق کی آمیزش سے پاک ہوگا اس لیے اسے عدول عن المسلک کا نام نہیں دیا جاسکتا بلکہ اسے درست طور پر کسی ایک مسلک کی طرف نسبت کے بجائے فقہ قرآن و سنت کہنا زیادہ درست ہوگا۔

 اس کے لئے سب سے پہلے ذ خیرہ  احادیث پر مشتمل  ایک ایسی  جامع کتاب کی ضرورت ہے جس میں نبی اکرم ﷺ ، خلفاء راشدین رضوان اللہ علہم اور صحابہ  کرام  رضوان اللہ علیہم کے اقوال و اعمال اور احوال  کے بارے میں صرف اور صرف  محکم ،مستحکم اور مستند روایات ہوں  جن کی سند جید ہو  جس میں ایک مجروح راوی نہ ہو

 اس اصول کے تحت  بخاری اور مسلم کی بھی  کافی احادیث خارج ہو جائیں  گی  اور ایسی ہی روایت کی وجہ سے ملحدین  اور مخالفین اسلام  کو اسلام  کے بارے میں میں ہرزہ سرائی کا موقع ملتا ہے

کیونکہ امام بخاری اور مسلم رحمہم اللہ سمیت  صحاح ستہ سمیت حدیث کی دیگر کتابوں کے مصنفین نے میں اپنی کتابوں میں   راوی کے قوی ہونے کی شرط تو لگائی  ہے مگرقرآنی اصول اور قانون شہادت  کے مطابق   اس روایت کے معیار شہادت پر پورا اترنے کو قطعا نظر انداز کرگئے ہیں ۔

 کیا تابعین اور ان کے بعد کے راوی  حضرات  حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ جیسے صحابی سے زیادہ قوی ہیں  جبکہ  ان کی انفرادی روایات کے ان کی اپنی ذات کے علاوہ کوئی قوی گواہ ہی موجود ہی  نہیں  تو کیا  ایسی روایات کو ایمانیات اور اسلامی تعلیمات کی بنایا جاسکتاہے  جب کہ اس کے بالمقابل  صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے مستند اعمال،اقوال  اور احوال موجود بھی ہوں اور کیا دین اسلام اپنے ارکان  کے بارے میں تعلیم دینے کے کا م  کا مدارصرف ایک راوی پر رکھنے پر مجبور قرار پا سکتا ہے

کیونکہ یہ بھی تو ممکن ہے ہے کہ  کسی ایک انفرادی روایت میں  واقعی  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بیان  ہو مگر اللہ تعالی کے  قرآن میں بیان کردہ اصول

ماننسخ من آیۃ او ننسہا نات بخیر منہا او مثلہا
(جو آیت (یا حکم) ہم منسوخ کردیں یا اسے (لوگوں کے ذہنوں سے ) بھلادیں ہم اس سے بہتر لے آتے ہیں )

کے تحت   کسی فرمان نبوی  کو منسوخ    ہونے پر اسے صحابہ کرام اور ان کے شاگردوں کے ذہنوں ہی سے بھلا دیا  گیا ہو البتہ چونکہ نبی اکرم ﷺ کی ہر ہر ادا  بے مثال  تھی   اس لیے اس کا رہتی دنیا تک ریکارڈ محفوظ رکھنے کی خاطر کسی ایک کے دل و دماغ میں محفوظ  تو کردیا مگر درجہ شہادت تک نہ پہنچنے دیا   کہ یہ روایت اب  قابل عمل  نہیں۔   ورنہ  قرآن کریم  کی حفاظت  کی ذمہ داری لینے والی ہستی سے یہ بات بہت بعید ہوگی کہ دین اسلام سے متعلق  تعلیمات   کو اس طرح مٹادے کہ رہتی دنیا کے لیے   اس کے بارے میں بتانے  اور  گواہی دینے  کو دو عادل  راوی بھی  دستیاب نہ ہو سکیں گے ۔

یہ اب سوچنے کی بات ہے کہ  ہم قرآنی اصول شہادت اور ثبوت  کو پامال کرتے ہوئے صرف اور صرف ایک راوی کی روایت پر  اپنے نظریات و اعمال کا مدار رکھتے ہوئے کہیں قرآن کا مقابلہ تو نہیں کرتے جارہے

جب کہ  ایسی منفرد روایات کے بجائے  صحابہ کرام کے قرآنی اصول شہادت کے مطابق مستند اقوال   اور فقہاء  امت کے اکثریتی فقہی قواعد کو ترجیح دینے سے سے شخصی  اقوال  پر قائم نظریات  خود بخود  معدوم ہو کر سواد اعظم اور نوواردان اسلام کے لیے قلبی اطمینان  و یکسوئی کا سامان مہیا ہو سکے گا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top